Skip to main content

Posts

Showing posts from April, 2020

Gradual Transitions are Non-Existent (Conflicting Reality in Fossil Record)

نیو ڈارونزم یا ماڈرن سینتھسز کے مطابق ارتقاء ایک ایسا پروسیس ہے جو نہایت آہستہ آہستہ (Gradualism) سیلیکشن پریشر کی سمت میں مجموعی طور پہ صرف فطری چناؤ کے ذریعے لمبے عرصے میں اکٹھی ہونے والی اڈاپٹیشنز سے ہوتا ہے۔ یہ ڈارونین تھیوری کا بنیادی اور اہم ترین دعویٰ (Tenet) ہے۔ ارتقاء کا نام لیتے ہی عوام کے ذہن میں یہ نقشہ آتا ہے۔ سائنس میڈیا بھی ایسی ہی وضاحتوں سے بھرا ہوا ہے کہ ارتقاء مسلسل اڈپٹیشنز کا سلسلہ ہے جو ماحولیاتی سیلیکشن پریشر کی سمت میں سروائو کرنے کا نام ہے اور اسی کے نتیجے میں میکرو ارتقاء ہوتا ہے اور نئی اقسام کے جاندار وجود میں آتے ہیں۔ جو جاندار ماحول سے مطابقت پیدا کر گئے وہ بچ گئے جو نہیں کر سکے وہ ناپید ہوگئے۔ ایسے ارتقائی ماڈل کو Paleontology کی فیلڈ Directional Evolution اور عام فہم انداز میں ڈارونین ارتقاء کہتے ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر ایک خشکی کا جاندار Indohyus پانی کے قریب رہنا شروع کر دے تو اس پہ اس ماحول میں بقا کا پریشر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس جاندار میں پانی میں رہنے والی اڈپٹیشنز اکھٹی ہونا شروع کر دیتی ہیں جو فطری چناؤ کرتا ہے جبکہ اڈاپٹیشنز رینڈم میوٹیشن سے آ

#Dandruff خشکی سکری !

تحریر: حسن خلیل چیمہ ________________________________________________ آج کل سردیاں چل رہی ہیں اور بہت سے لوگوں کے بالوں سے سفید رنگ کے ذرات نکلتے ہیں یا پھر کالے بالوں کے درمیان سفید ذرات نظر آتے ہیں۔ مختلف کاسمیٹکس کمپنیاں جو شیمپو پراڈکٹس بناتی ہیں وہ سردیوں کے موسم میں خشکی سکری کو بنیاد بنا کر یا پھر یوں کہیں کہ کوئی بہت بڑی بیماری بنا کر پیش کرتی ہیں اور اپنا شیمو یا پروڈکٹس بیچتی ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ خشکی سکری کوئی بیماری ہے نا یہ کسی ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہے اور نا ہی خشکی سکری سے آپ کے بالوں کو کسی قسم کا فرق پڑتا ہے یا زیادہ خارش کرنے سے سکیلپ زخمی ہوتا ہے لیکن ایسا عموماً بہت کم لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ! سب سے پہلے کہ خشکی کیا ہے اور کیسے ہوتی ہے ؟ سب سے پہلی وجہ آپ کی جلد کا خشک ہو جانا ہے یعنی ڈرائی سکن ہونے کی وجہ سے خشکی ہو جاتی ہے دوسری وجہ آپ کسی ایسے ہیر پروڈکٹ کا استعمال کر رہے ہیں جو آپ کے سکیلپ کو خراب کر رہا ہے یا پھر سکیلپ کے لئے نقصاندہ ہے جیسے لگانے سے سکیلپ میں الرجی پیدا ہوتی ہے جو بعد میں خشکی سکری کی وجہ بنتی ہے ۔ ان پروڈکٹس می

#bio_gas #گوبر_گیس

کچھ دہائیاں پہلے انڈیا کی دیہات میں قدرتی گیس اور توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک تکنیک استعمال ہوئی۔ اس تکنیک کو "گوبر گیس" کے نام سے کافی پذیرائی ملی۔ یہ تکنیک نئی تو نہیں تھی لیکن اس تکنیک سے باقاعدہ طور پر توانائی کی ضروریات پوری کرنا نیا تھا۔ سترہویں صدی میں بھی اس تکنیک کو (Anaerobic digestion) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اب تو دنیا کے کئی ممالک میں اس تکنیک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص کر دیہات میں جہاں گرڈ سے توانائی کی ترسیل مشکل ہوتی ہے۔ وہاں حکومتی تعاون و ذاتی طور پر گوبر گیس پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ --------------------------  سائنس کے شروعاتی اسباق میں ہمیں   (fermentation) کا پڑھایا جاتا ہے۔ "بیکٹیریا  ، خمیر وغیرہ کے ذریعے نامیاتی اشیاء کی کیمیائی توڑ پھوڑ کو فرمنٹیشن کہا جاتا ہے۔ جب اسی فرمنٹیشن کو آکسیجن کی غیر موجودگی میں انجام دیا جائے تب یہ پراسس (Anaerobic digestion) کہلائے گا۔ فرض کریں ، گائے کے گوبر کو آکسیجن کی غیر موجودگی میں رکھ دیا گیا ہے ، آہستہ آہستہ وہ گوبر توڑ پھوڑ کا شکار ہوتا رہے گا۔ توڑ پھوڑ کے دوراں میتھین (قدرتی گیس) او

|Epigenetics and Failure of Neo Darwinism|

اس پوسٹ میں ایپی جینٹک کے پہلو سے ہونے والے نئے تجرباتی اور مشاہداتی شواہد سے نیو ڈارونزم کی ناکامی اور اس کے متبادل وضاحتی فریم ورک کے امکان کو دو سائنس پبلیکیشنز سے واضح کیا گیا ہے۔ نیو ڈارونزم کے Central tenet کے مطابق کسی بھی جاندار کا جینوم ماحول سے مکمل طور پہ لا تعلق ہوتا ہے۔ ماحول میں کیا چل رہا ہے کیسے چل رہا ہے اس کا کسی جاندار کے جینوم پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہر جاندار کی phenotype کی تبدیلی random mutation سے آتی ہے۔ بغیر کسی مقصد، پلان اور ڈائریکشن کے ہونے والی جینیاتی میوٹیشن بعض اوقات مفید ثابت ہو جاتی ہیں اس کے بعد اگر وہ جاندار کے سروائیول میں مدد کرے تو یہ جینیاتی تبدیلی Mendelian transmission کے اصول پہ آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہے اسی اصول پہ نیو ڈارونزم میں ارتقاء ہوتا ہے۔ لیکن ایک ابھرتی فیلڈ ایپی جینیٹک سے انے والے سائنسی شواہد کے مطابق ماحول کا ڈائریکٹلی جاندار کے جینوم پہ اثر ہوتا ہے ماحول کے مطابق جینوم اپنی کارکردگی کو تبدیل کرتا ہے جس سے نئی phenotype وجود میں آتی ہے جیسے کہ ڈارون فنچز کی چونچ کی مختلف ساخت کسی میوٹیشن کا نہیں بلکہ ایپی جینٹک ریگولیشن

قرآن اور سائنس کی مطابقت کی منطقی دلیل کیا ہے؟ کوئی ایسی دلیل جو منطقی وزن رکھتی ہو؟ (پہلا حصہ )

اس دلیل کی شروعات کرتے ہیں۔ بحثیت ایک مسلمان ہم سب اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ تمام ستارے، زمین، مادہ، انرجی، کوانٹم فزکس کے قوانین، بائیولوجی کی قوانین، کیمسٹری کے قوانین، تمام جاندار اور ان کے رہن سہن کا نظام ایک خدا کی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ ڈی این اے کی انفرمیشن، خلیہ کا نظام، ستاروں میں سے فوٹونز کا نکلنا، زمین کی میگنیٹک تہ یہ سب ایک خدا کی تخلیق اور ارادے کا نتیجہ ہے جو لامتناہی قدرت اور ذہانت کا حامل ہے۔ منطقی طور پہ یہ واضح ہے کہ اس کائناتی نظام کو بنانے والا خدا خود اس نظام کے ہر قانون اور حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور انسانوں سے بہتر جانتا ہے۔ اللہ پاک نے یہ تمام کائناتی نظام انسانی تخلیق سے پہلے ترتیب دیا۔ پھر اللہ پاک نے چاہا تو انسان کی تخلیق فرما دی وقت کے ساتھ ہمارے آخری نبی پاک کا ظہور ہوا اور قرآن پاک نازل کیا گیا۔ یہ قرآن پاک خدا کی طرف سے ہے۔ اسی ایک خدا کی طرف سے جس نے پوری کائنات کی تخلیق اور ترتیب ماضی میں کی۔ قرآن پاک میں کائنات، انسان، سمندر، آسمان، مشاہدات، سوچ و بچار، جاندار اور زمینی نظام بارے معلومات پہ مبنی سینکڑوں آیات ہیں۔ یہ معلومات دینے والا وہی ایک خدا

BIOINFORMATICS

چونکے ڈی این اے کو The book of Life بھی کہا جاتا ہے اور یہ چار حروف A T C G کی ترتیب مشتمل ہوتی ہے۔ اس لئے ہم کتاب کی مثال سے جنیاتی مماثلت کے طریقہ کار پہ روشنی ڈالیں گے۔ فرض کریں آپ کے پاس،  ایک کتاب ہے 500 صفحوں پہ مشتمل جس کے  50,000 الفاظ ہیں۔ دوسری کتاب ہے 600 صفحوں پہ جس کے 60,000 الفاظ ہیں۔ دونوں کتابوں کا موضوع سائنس ہے۔ اگر آپ ان دونوں کتابوں میں لکھے گئے الفاظ میں مماثلت نکالنا چاہیں تو دکھنے میں آسان لگنے والا یہ کام حقیقت میں کافی مشکل ہے اور اس کا دارومدار اس بات پہ ہے کہ مماثلٹ سے آپ کا مطلب کیا ہے اور آپ مماثلت کیسے نکالتے ہیں۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ اگر آپ ایک پوری کتاب کے الفاظ کو ترتیب اور الفاظ کی موجودگی کے لحاظ سے  دوسری پوری کتاب کے الفاظ کی ترتیب اور موجودگی کے لحاظ سے موازنہ کریں گے تو چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ان میں کوئی مماثلت ہوگی۔ مزید آسانی کے لیئے اس طرح وضاحت کرتا ہوں کہ دونوں کتابوں کے تمامی الفاظ کو صرف ایک لائن میں لکھیں۔ پہلے کتاب کے تمام الفاظ ایک لائن میں پھر دوسری کتاب کے تمام الفاظ ایک لائن میں۔ اس طرح ہمارے پاس دو لائنیں آئیں گیںج

|US Army and UFO's|

ناقابلِ شناخت اڑتی ہوئی چیزیں جنہیں  (Unidentified Flying Objects UFO's) بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا مظہر ہے جس میں کچھ عجیب ہیئت کی چیزیں اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی شکل گول روشنی کے دائروں سے لے کر دھات کے بنے کیوب جیسی ہو سکتیں ہیں۔ ان سب میں ایک خاصیت ضرور موجود ہوتی ہے۔ ان کے اڑنے کا انداز، تیز رفتاری اور دائیں بائیں مڑنے کا طریقہ کسی بھی انسانی ٹیکنالوجی سے مماثلت نہیں رکھتا۔ لہذا ان کو ناقابلِ شناخت اڑتی چیزوں کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ufo موجود ہیں سوال یہ ہے کہ ufo کیا ہیں؟ ان کو دیکھنے کی شہادتیں اور ویڈیوز نہ صرف عام لوگوں سے موصول ہوتی ہیں بلکہ امریکی فوج کے ٹرینڈ پائلٹس تک ان کو دیکھنے اور ان سے آمنا سامنا ہونے کے متعدد واقعات کو رپورٹ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پہ 2014 سے 2015 کے دوران امریکی بحری بیڑے Theodore Roosevelt کو ان ufo  سے سامنا کرنا پڑا۔ اس بحری بیڑے سے جب امریکی پائلٹس پرواز کے لئے نکلتے تو ان کے ریڈار، انفراریڈ کیمرہ اور دیگر آلات ان عجیب غریب اڑتی ہوئی چیزوں کی موجودگی کو کنفرم کرتے۔ ایسے واقعات کئ مہینے تک چلتے رہے۔ 6 امریکی پائلٹس ان ک

|Earth is NOT Flat|

یہ دو منٹ کی وڈیو ایک خلا باز نے سپیس سٹیشن کی مرمت کے دوران بنائی ہے۔  زمین کو بغور دیکھیں اور عقل کا استعمال کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ زمین گول ہے نہ کہ فلیٹ ہے۔ زمین کا گول ہونا آنکھوں دیکھا مشاہدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہزاروں لاکھوں انسان کر چکے ہیں اور یہ مشاہدہ روزانہ کی بنیادوں پہ آج بھی جاری ہے۔ یہ ماضی کی قیاس آرائیوں پہ مبنی کوئی مفروضہ نہیں۔ https://youtu.be/mMZtpMSmqoE یہ ایک اور ویڈیو ہے اس میں سیٹلائٹ گول زمین کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ یہ ایک ویڈیو ریکارڈر سے ڈائریکٹ زمین کی ویڈیو بنائی گئی ہے بلکل ویسے ہی جیسے آپ موبائل سے اپنی وڈیو بناتے ہیں۔ https://youtu.be/n4IhCSMkADc  ایک اور ویڈیو ہے یہ وڈیو ریکارڈر سے ڈائریکٹ گول زمین کی بنی ہوئی وڈیو ہے نہ کہ مصنوعی گرافِکس۔ https://youtu.be/Xjs6fnpPWy4 زمین گول ہے اور یہی حقیقت اور مشاہدہ ہے۔ فلیٹ ارتھ ایک لغو اور فضول سوچ کا نام ہے۔ -------------------------------------------- Sohaib Zobair

جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا !

|Sunrise From West A Scientific Reply to Pseudo-Intellectuals| ہمیشہ کی طرح سائنس کے نام پہ اسلام کی تحقیر اور تضحیک کا سلسلہ جاری ہے۔ سائنس کے نام پہ بنائے گئے گروپس میں اسلام سے متعلقہ پوسٹس اپرو کی جاتیں ہیں لیکن ان پوسٹس پہ اسلام کا زکر کرنے پہ بلاک یا میوٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب منافقانہ اور جاہلانہ پالیسی سامنے آئی ہے۔ ایک تو اسلام اور سائنس کو علیحدہ قرار دینے کی غلط پالیسی رائج ہے پھر یہ کہ اسلام اور سائنس سے متعلقہ پوسٹس بھی بار بار اپرو کی جاتیں ہیں  اور اسلامی پہلو سے بات کرنا بھی گروپ پالیسی کے خلاف ہے۔ آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ مقصد صرف ایک ہی معلوم ہوتا ہے، فساد پھیلانا۔ پھر سائنس کے نام پہ انتظامیہ کی جانب سے ایسے بے ہنگم دعوی جات کیے جاتے ہیں کہ سائنس کا سر شرم سے جھک جائے۔ حال ہی میں سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کا سوال ایک گروپ میں اپرو کیا گیا۔ ظاہری بات ہے یہ متعدد صحیح احادیث میں بیان کردہ حقیقت ہے جس سے ہر مسلمان واقف ہے۔ اس پوسٹ کا تسلی بخش جواب تبھی ممکن تھا جب کسی گروپ میں اسلام اور سائنس کو متعدل اور متوازن انداز میں گفتگو کا حصہ بنایا جائے پوسٹ کرنے والے

Urgency to Rethink Evolution

Urgency to Rethink Evolution (Growing Disagreement to Narrow Evolutionary Mindset) --------------------------------------------------- سائنس ایک ایسا پروسیس جس سے مسلسل نئی تحقیات، نئے مشاہدات اور نئے ڈیٹا سے نئی سائنسی تھیوریز کی بنیاد رکھی جاتی ہے ہر سائنسی تھیوری کی حدود اور ایک عمر ہوتی ہے جس کے باہر نہ تو یہ تھیوری کچھ بتا سکتی ہے اور نہ ہی ایک وقت سے زیادہ چل سکتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب نئی تحقیقات کی روشنی میں ہر سائنسی تھیوری اپنی عمر پوری کر کے فیل ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک نیا سائنٹفک فریم ورک لیتا ہے۔ اگر آپ سائنس کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو اس کے بہت سے مثالیں موجود ہیں مثال کے طور پہ نیوٹونین گریوٹی اور ایک گیلیکسی پہ مشتمل ساکت کائنات کو آج جنرل ریلیٹیویٹی اور سیکڑوں بلین گیلیکسیز پہ مشتمل پھیلتی کائنات سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس کی بہت عمدہ وضاحت اس آرٹیکل میں کی گئی ہے، Every scientific theory will someday fail, and when it does, that will herald a new era of scientific inquiry and discovery. And of all the scientific theories we’ve ever come up with, the best ones

ہم جنس پرستی اور میڈیکل سائنس ! Homosexuality

ہم جنس پرستی اور سائنس ! #Homosexuality and science! ________________________________ ازقلم : حسن خلیل چیمہ ________________________________________________ ایک وقت تھا جب الحاد فلسفے کا سہارا لے کر لوگوں کو انکار خدا پر قائل کرتا اور مذہب کو قدامت پرست سوچ اور دقیانوسی کہہ کر رد کرتا لیکن الحاد کا یہ وار کامیاب نہیں ہوا اور الحاد نے پھر سائنس کا سہارا لیا اور نامکمل سائنسی علم کی آڑ میں مذہب مخالف تحریک شروع کی جس کی ایک وجہ عیسائیت میں تعصب پرستی اور بائبل کی تحریف شدہ سائنس سے متصادم عبارات تھیں یہی وجہ تھی کہ مغرب میں پہلے پہر سائنسی علم کی ترویج کرنے والے کو موت تک کی سزا سنائی جاتی اور ہزاروں سائنس دان موت کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے جبکہ دوسری طرف مسلمانوں نے سائنسی علم کو آزادی سے پروان چڑھایا اور سائنسی علم کی بنیاد رکھی جو بعد میں مغرب کیسے منتقل ہوا یہ ایک لمبی تاریخ ہے یہاں ہم سائنس اور الحاد کی بات کریں گے تو الحاد نے جب شروع میں سائنس کا سہارا لیا تو بعد میں سائنس کے نام پر بہت سے خود ساختہ نظریات بھی گھڑ لئے جس کی سادہ سی مثال ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہے جو کہ نامکمل ہونے
#پانی_کا_بے_قائدہ_پھیلاؤ (Anomalous expansion of water) ۔ ایک عام سا سوال ہے کہ  جب قطب جنوبی اور قطب شمالی  پر انتہا کی ٹھنڈ ہوتی ہے تب آبی حیات کیسے زندہ رہ سکتی ہے۔۔۔ ؟ جب کہ وہاں کے سمندر ، تالاب اور جھیلیں جم جاتی ہیں۔۔۔۔   ہمارا آج کا موضوع پانی کی ایک بے قائدہ خصوصیت کے متعلق ہے ، جو آبی حیات کے لئے قدرت  کا ایک تحفہ ہے ۔ اگر پانی اس خصوصیت کا حامل نا ہوتا تو ہماری آبی حیات ہمارے ساتھ نہیں رہتی۔۔۔  --------------------------------- پانی ضرورت زندگی ہونے  کے ساتھ ساتھ غیر معمولی خصوصیات کا حامل بھی ہے ۔ آپ سب کو پتا ہوگا کہ مادے کی  تین حالات ہیں ان حالات  میں سے مائع کو جتنا گرم کیا جائے گا ، وہ پھیلتا ہی جائے گا ، اور آخر کار ابلنے کے بعد بخارات میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایسے ہی گرم کرنے پر کثافت کم اور ٹھنڈا کرنے پر بڑھتی ہے۔  مائع کو جتنا ٹھنڈا کیا جائے گا ، سکڑتا جائے گا ، اور آخرکار نقطئہ انجماد پر پہنچ کر جم جائے گا ۔زیادہ تر مائعات ایسے ہی کرتے ہیں کہ وہ گرم کرنے پر پھیلتے ہیں اور ٹھنڈا کرنے پہ سکڑتے ہیں۔ ( یہاں پھیلنے/سکڑنے سے مراد لمبائی ، چوڑائی اور موٹائی میں س

فلاسفی آف سائنس (پہلا حصہ )

فیس بک کے پاکستانی سائنس گروپس میں دو سوال ایسے  ہیں جو بار بار سامنے آتے ہیں۔ 1.  کیا سائنس اور اسلام کا موازنہ کیا جا سکتا ہے 2.  نظریہ حیاتیاتی ارتقاء کی حقیقت کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں سوالوں کی حقیقت تک تب تک نہیں پہنچا جا سکتا جب تک ہم ایک بنیادی سوال "سائنس بذات خود کیا چیز ہے اور کس حد تک مستند ہے" کو اچھی طرح سے نہ سمجھ لیں۔ فلاسفی آف سائنس کی یہ سیریز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سائنس کے طالب علموں کے لیے تو یہ سلسلہ مددگار ہو گا ہی لیکن اگر آپ لوگ اوپر دئیے گئے دو سوالوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو خاص طور پر یہ سلسلہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون تھوڑا خشک محسوس ہو لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ ختم کرنے کے بعد سائنس کی حقیقت کے بارے میں آپ کے نکتہ نظر میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ یہ سلسلہ لکھنے کے لئے میں نے ایلن چالمرز کی کتاب What is this thing called science سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے ۔ فلاسفی آف سائنس قسط نمبر 1 تحریر: ڈاکٹر محمد رحمان یہ ہماری خوش قسمتی کہئے یا بدقسمتی، آج ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سائنس کو ہماری زندگ

#Vitamins

(آخری حصہ) •B6 وٹامن بی کمپلیکس گروپ میں  وٹامن B6 بھی شامل ہے۔ پروٹین ، چربی اور کاربوہائیڈریٹس کے میٹابولزم کے لئے وٹامن بی سکس کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ نیوروٹرانسمیٹرز اور خون کے لال خلیوں کے بننے کے لئے بھی اہم ہے۔ چونکہ انسانی جسم اس وٹامن کو اندرونی طور پر بنا نہیں پاتا۔ اس لئے مختلف غذائوں سے یہ وٹامن حاصل کی جاتی ہے۔ وٹامن بی سکس ، ڈپریشن و پریشانی کے حالات میں سکون بخشتی ہے۔ کیونکہ یہ نیوروٹرانسمیٹرز بناتی ہے ۔ اس کی وجہ سے جذبات و  ہارمون سسٹم  بہتر ہوتا ہے اور نفسیاتی مسائل میں آرام ملتا ہے۔ آنکھوں کی حفاظت اور بہتری کے لئے بھی اہم ہے۔ وٹامن بی سکس کو ، آلو ، جگر ، مچھلی ، گوشت اور دیگر نشاستہ کی حامل خوراک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ •B12 انسانی جسم کے ہر سیل کو تھوڑ پھوڑ کے عوامل کے لئے وٹامن B12 کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈی این اے کی ترکیب( synthesis) ، فیٹس میٹابولزم اور چربی کی تیاری میں بھی اہم ہے۔ گوشت ، انڈے ، مچھلی ، مرغی اور ڈیری پراڈکٹس سے کثیر مقدار میں اس وٹامن کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر انسانی معاشرے میں وٹامن B12 کی کمی ایک عام بات ہے۔ اس وٹامن کی کمی

#Vitamins

(دوسرا حصہ ) •Vitamin K وٹامن کے ، انسانی جسم کی اہم ضرورت ہے۔ انسانی جسم وٹامن کے کو پروتھرومبن نامی پروٹین بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ وہ پروٹین بلڈ کلاٹنگ ( کسی زخم کی وجہ سے خون کا بہنا اور لوتھڑا بن جانا) اور بون میٹابولزم کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ وٹامن کے" مختلف غذائی اجزاء سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان میں پتوں والی سبزیاں ، سرسوں کا ساگ ، پالک ، شلجم اور گوبھی جیسی سبزیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انڈوں اور گوشت میں بھی تھوڑی مقدار میں وٹامن کے پایا جاتا ہے۔ وٹامن کے" کی  قلت ، بلڈ کلاٹنگ میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے پروتھرومبن پروٹین کی لیول کم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے  بون میٹابولزم بھی متاثر ہوتا ہے۔ •Vitamin B complex (thiamine , riboflavin , niacin , B6 , B12 , folic acid , pantothenic acid , biotin)  وٹامن بی آٹھ مرکبات پر مشتمل ایک گروپ ہے ، جو انسانی جسم میں مختلف اعضاء و سرشتوں میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ وٹامنز انسانی جسم کے اندر مل کر کام کرتے ہیں اور ہر مرکب اپنا مخصوص کام کرتا ہے۔ اوپر ہیڈنگ میں آٹھ وٹامنز کے

#vitamins

#Vitamins (پہلا حصہ) زندگی کو برقرار رکھنے میں مدد دینے والے نامیاتی مرکبات کو وٹامنز کہا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں توڑ پھوڑ (metabolism) کے عوامل اور صحیح طریقہ سے کام کرنے کے لئے وٹامنز کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان زیادہ تر وٹامنز کو مختلف غذاؤں سے حاصل کرتا ہے ، کیونکہ انسانی جسم کے اندر صرف کچھ وٹامنز کے علاوہ وٹامنز پیدا نہیں ہوتی۔ اور اب تو وٹامنز میڈیکل اسٹورز پر بھی مل جاتی ہیں۔ وٹامنز کو کئی اقسام میں تقسیم گیا ہے ۔ جن پر تفصیلی بات ہوگی۔۔۔! •Vitamin A وٹامن A ، گروتھ ، نشونما ، قوت مدافعت ، نظر ، اور ریپروڈکش کے لئے ضروری  ہے۔ وٹامن اے ایک طاقتور Antioxidant اور ہارمون کی طرح کام کرتا ہے جو Gene expression( جین ایکسپریشن کے دوراں ڈی این اے میں موجود ہدایات ، ایک فنکشنل پراڈکٹ یعنی پروٹین میں بدل جاتی ہیں) پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں حاملہ عورتیں وٹامن اے کی کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ کمی تو ٹھیک ، لیکن وٹامن اے کی زیادتی بھی (hypervitaminosis) نامی بیماری کا باعث بنتی ہے۔ وٹامن اے کی کمی ، بالوں کے گرنے ، چمڑی کے پرابلمز ، dry eyes اور رات کو نا دیکھ پانے جیسی علام

Unsupported Dogma of Gradual Evolution (Sudden Appearance of Species)

موجودہ دور میں ایک بات دیکھنے میں آتی ہے کہ پاپولر سائنس لٹریچر میں ارتقاء پہ نیو ڈارونزم کی تھیوری کی ناکامیاں چھپا کر اسے ناجائز طور پہ ناقابل تردید حقیقت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے یعنی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھایا جاتا ہے۔ اس طرح کی یک طرفہ انفارمیشن تک عام لوگوں کی رسائی ہے جس سے عوام گمراہ ہوتی ہے۔ جبکہ ارتقاء پہ اورجنل سورسز اور سائنس پبلیکشنز میں نیو ڈارونزم موجودہ دور میں متضاد وضاحتوں میں الجھی ہوئی ایک سوچ ہے جس کے بنیادی تصورات یا تو غلط ثابت ہو رہے ہیں یا ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی آجتک سائنسی سند کا درجہ نہیں پا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماڈرن سائنس کے اس دور میں نیو ڈارونزم کا وضاحتی فریم ورک ناکامی کا شکار ہے۔ نیو ڈارونزم کا ایک ایسا ہی بنیادی اور اہم ترین تصور جانداروں کا تدریجی ارتقاء (Gradual Evolution) ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نیو ڈارونزم کا مطلب ہی یہ ہے کہ جاندار آہستہ آہستہ بڑے لمبے عرصے میں مختلف شکلوں، جانداروں اور سپیشیز میں ارتقاء کرتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یعنی ایک جاندار میں لاکھوں کروڑوں سالوں میں چھوٹی چھوٹی مفید جنیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جن کو ف