Skip to main content

فلاسفی آف سائنس (پہلا حصہ )

فیس بک کے پاکستانی سائنس گروپس میں دو سوال ایسے  ہیں جو بار بار سامنے آتے ہیں۔
1.  کیا سائنس اور اسلام کا موازنہ کیا جا سکتا ہے
2.  نظریہ حیاتیاتی ارتقاء کی حقیقت کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں سوالوں کی حقیقت تک تب تک نہیں پہنچا جا سکتا جب تک ہم ایک بنیادی سوال "سائنس بذات خود کیا چیز ہے اور کس حد تک مستند ہے" کو اچھی طرح سے نہ سمجھ لیں۔ فلاسفی آف سائنس کی یہ سیریز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سائنس کے طالب علموں کے لیے تو یہ سلسلہ مددگار ہو گا ہی لیکن اگر آپ لوگ اوپر دئیے گئے دو سوالوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو خاص طور پر یہ سلسلہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون تھوڑا خشک محسوس ہو لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ ختم کرنے کے بعد سائنس کی حقیقت کے بارے میں آپ کے نکتہ نظر میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔
یہ سلسلہ لکھنے کے لئے میں نے ایلن چالمرز کی کتاب
What is this thing called science
سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے ۔

فلاسفی آف سائنس
قسط نمبر 1

تحریر: ڈاکٹر محمد رحمان

یہ ہماری خوش قسمتی کہئے یا بدقسمتی، آج ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سائنس کو ہماری زندگی میں ایک کلیدی اہمیت حاصل ہے اور شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ  ایسا بچا ہو جہاں سائنس نے اپنا اثرنہیں چھوڑا۔ حتی کہ آج لوگ مذاہب کی سچائی پرکھنے کے لئے بھی سائنس کو  پیمانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ پچھلے تین سو سال میں  فزکس کے شبعے میں کی گئی  بے انتہا ترقی  نے انسانیت کو اپنے حصار میں گرفتار کر لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ   ہر  اس چیز  پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے لگے ہیں    جس پر سائنس کا لیبل چسپاں کر دیا جائے ۔ اس ضمن میں دو سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں
وہ کونسا طریقہ  کار ہے جسے اپنا کر سائنس دان فزکس کے شعبے میں اس قدر ترقی کے قابل ہوئے ؟
کیا اس طریقہ کار کو  دوسرے سائنسی  علوم جیسے بیالوجی، سائیکولوجی اور عمرانیات جیسے شعبوں میں لاگو کیا جا سکتا ہے؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لئے ہمیں سائنسی طریقہ کار   کو  انتہائی باریک بینی سے جانچنے کی ضرورت ہے ۔اس مقصد کے لئے بارہا ہمیں ماضی میں جا کر ان مراحل کو کھنگالنا پڑے گا جن سے گزر کر ارسطو، گیلیلیو، نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے سائنس دان  فزکس کو اس کے موجودہ مقام پر لانے کے قابل ہوئے ۔اس تحریر میں ہم نہ صرف اوپر ذکر  کئے گئےسوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے بلکہ یہ جاننے کی کوشش بھی کریں گے کہ کیا  ایسے عالمگیر   اصول وضع کیے جا سکتے ہیں جو سائنس کے دوسرے شعبوں کے لئے بالکل اسی طرح  کارآمد ہوں  جس طرح وہ فزکس کے لئےکار آمد ہیں۔ جیسے جیسے آپ اس تحریر کو پڑھتے جائیں گے آپ کو  اندازہ ہوتا جائے گا کہ  سائنسی طریقہ کار کے لئےایسے عالمگیر اصول وضع کرنا  جو تمام شعبوں پر یکساں لاگو ہو سکیں ناممکن ہے۔   یہاں سوال یہ  پیداہوتا ہے کہ  اگرفزکس  کی ترقی میں اپنائے گئے   اصول سائنس  کے  دوسرےشعبوں کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے  توکیا ان شعبوں کے علوم  اتنے ہی مستند ہیں جتنے کہ فزکس کے علوم؟ کیا ہم  دوسروں شعبوں میں پیش کئےگئے نظریات کا موازانہ فزکس کے نظریات یا قوانین سے کر سکتے ہیں؟
 سائنس کے بارے میں مشہور ہے کہ سائنس حقائق سے اخذ کئے گئے علم کا نام ہے یعنی یہ ایسا علم ہے جو کسی کی ذاتی آرا پر مبنی نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربات سے اخذکیا جاتا ہے۔ سائنس کی یہ تعریف خود میں اتنی کشش رکھتی ہے کہ کچھ لوگ سائنس کو ہر مرض کی دوا سمجھے بیٹھے ہیں ۔ سائنٹزم کے شکار ان افراد کے لئے  علم کے دوسرے ذرائع بالکل اہمیت نہیں رکھتے مگر دوسری طرف  پاؤل فیئرابینڈ جیسے فلاسفرز کے لئے سائنسی طریقہ کار میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اسے دوسرے علوم سے ممتاز کرے۔ اس کی نظر میں سائنس ایک جدید مذہب کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں سائنسی نظریات کا چناؤ انفرادی خواہشات کے تابع ہے۔ اگرچہ   میری نظر میں فیرابینڈ  نے  ضرورت سے زیادہ سخت رویہ اختیار کیا ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مشاہدہ اور اسکی بنیاد پر کیا گیا منطقی استدلال  ایک محدود صلاحیت کا حامل  ہے۔
مشاہداتی بیانات
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سائنسی سفر میں پہلا مرحلہ مشا ہدہ ہے   چنانچہ سائنس کی بنیاد مشاہداتی بیانات ہیں لیکن  عام طور پر مشاہداتی بیانات کو ہی  حقائق سمجھ لیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسی خاصیتیں ہیں جن کی بنا پر ہم کہہ سکیں کہ یہ مشاہدات سائنسی علم کی بنیاد بننے کے قابل ہے؟ اس سلسلے  میں  ہم یہ دیکھنا  چاہیں گے کہ 
1. مشاہداتی بیانات  کے اخذ کرنے میں ظاہری حواس کا کردار کس حد تک ہے اور اس کام کے لیے کتنی احتیاط اپنائی گئی ہے؟  کیا یہ مشاہدات موضوعی ہیں یا معروضی اور ان کو اخذ والے جانبدار سوچ کے حامل تو نہیں؟
2. کیا یہ مشاہداتی بیانات  اس قابل ہیں کہ سائنسی علوم کو ناقابل تردید بنیاد فراہم کر سکیں؟
3. کیا مشاہداتی بیانات نظریہ  قائم کرنے سے پہلے اخذ کئے گئے ہیں اور کہیں یہ حقائق نظریہ پر انحصار  تو نہیں کرتے؟
متعدد مثالوں سے یہ بات واضح کی جا سکتی ہے کہ  ایک ہی جگہ سے ایک جیسا منظر دیکھ کر بھی  دو مشاہدہ کرنے والوں کا ادراک مختلف ہو سکتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے مائیکل پولانی ایکسرے اور میڈیکل کے طالب علم کی مثال دیتے ہیں کہ  شروع میں جب ایک طالبعلم سینے کے ایکسرے فوٹوگراف کا مشاھدہ کرتا ہے تو اسے صرف دل اور پسلیاں نظر آتی ہیں۔ مگر کچھ ہفتے تک  اس شعبے کے ماہرین کو اس گراف کے بارے میں بات کرتے ہوئے سننے کے بعد وہ   طالب علم اس قابل ہو جاتا ہے کہ  ایکسرے میں موجود  مختلف  بیماریوں کی نشانیاں پہچان سکے۔ جیسے جیسے اس طالب علم کا تجربہ بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی توجہ دل اور پسلیوں کی بجائے  ایکسرے میں موجود تفصیلات کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے ۔ کسی شعبے میں ایک نئے  آنےوالے شخص کے مقابلے میں اس شعبے کےماہر کاریگر  کا ادراک مختلف ہو سکتا ہے۔ ان تفصیلات کی روشنی میں  یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی مشاہدے کا ادراک  حواس کے ساتھ ساتھ مشاہد کی ذہنی حالت اور علمی پس منظر پر بھی منحصر ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ  مشاہدے میں حواس کی اہمیت نہیں رہتی۔ مشاہد کی ذہنی حالت، ان کے پرانے تجربات اور احساسات مشاہدات پر کس حد تک اثر اندا ز ہوتے ہیں یہ ابھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ حواس   پر اخذ کئے گئے مشاہداتی بیانات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن  اوپر کی گئی گفتگو سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ اس طرح اخذ کئے گئے  حقائق اتنے بھی قابل اعتبار نہیں کہ ان پر آنکھیں بند کر کے ہی  یقین  کر لیا جائے ۔
مشہور زمانہ ناول شرلاک ہومز کے مصنف سر آرتھر  ڈوئل  سے ایک قول منسوب کیا جاتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ” حقائق اکھٹے کرنے سے پہلے کسی چیز کے بارے میں نظریہ قائم کرنا ایک بہت بڑی حماقت ہے ۔ اس طرح کرنے سے   آپ لاشعوری طور پر حقائق کو نظریے کے حق میں ڈھالنا شروع کر دیتے ہیں  جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ نظریے کو حقائق کے مطابق ڈھالا جائے “۔    تمام حقائق اکھٹے کئے بغیر نظریہ قائم کر لینا جانبداری کا باعث بن سکتا ہے اور آپ ان تفصیلات  کو لاشعوری طور  صرف نظر کر سکتے ہیں جو آپ کے قائم کردہ نظریہ سے مطابقت نہ رکھتیں ہوں۔ چنانچہ اس طرح حاصل کیا علم  شک و شبے سے پاک نہیں ہو سکتا۔ نظریہ قائم کرنے سے پہلے حقائق اکھٹے کرنا انتہائی اہم ہے لیکن کیا ایسا کرنا عملی طور پر ممکن ہے؟  پیچھے کی گئی گفتگو سے شاید آپ خود ہی اس نتیجے تک پہنچ چکے ہوں گے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ خاص طور سائنس کے میدان میں تو بالکل بھی نہیں۔  حقائق اخذ کرنے کے لئے  ایک خاص علمی پس منظر کا حامل ہونا ضروری  ہے لیکن یہ علمی پس منظر حقائق اخذ کرنے میں جانبداری کا باعث بن سکتا ہے۔ حقائق اخذ کرنے کے لئے خاص علمی پس منظر کی موجودگی کس حد تک حقائق پر اثر انداز ہوتی ہے  یہ ایک حل طلب مسلہ ہے لیکن تمام حقائق اکھٹا کئے بغیر نظریہ قائم کر لینا جانبداری کا باعث بن سکتا ہے۔ اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر حقائق اخذ کرنے کے لئے استعمال کئے گئے علمی پس منظر میں کوئی خامی موجود ہے تو  ان اخذ کردہ حقائق میں بھی خامی موجود ہو گی مثال کے طور پر ایک وقت تھا جب یہ مشاھداتی  بیان کہ ”زمین ساکن ہے“  ایک تسلیم شدہ حقیقت مانا جاتا تھا کیونکہ  ہم زمیں کو حرکت کرتا ہوا محسوس نہیں کر سکتے نہ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ جب ہم زمیں سے اوپر اچھلتے ہیں تو  ہمارے نیچے موجود  زمیں  آگے کی طرف نہیں سرکتی بلکہ ہم عین اسی جگہ واپس گرتے ہیں  جہاں  سے چھلانگ لگائی ہو۔آج ہم جانتے ہیں کہ  مشاہداتی  بیاں  ”زمین ساکن ہے“ ہمارے مشاہدے کے عین مطابق ہونے کے باوجود ٹھیک نہیں۔ تو وہ کونسی ایسی چیز تھی جس  کی وجہ سے ہم  مشاہدے سے غلط حقیقت اخذ کر بیٹھے؟ اگر وجہ پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو ہم جان سکتے ہیں کہ یہاں علمی پس منظر میں خامی ہمارے آڑے آئی۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ اگر  زمیں ساکن نہیں تو کسی جسم کو ہوا میں اچھالنے کے دوران زمیں کو حرکت کر کے آگے سرک جانا چاہئے  نتیجتا ہوا میں اچھالے جانے والا جسم اس جگہ سے دور گرنا چاہئے جہاں سے اسے اچھالا گیا ہو۔ آج جمود کی خاصیت کی بنا پر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ  زمیں کی حرکت کے باوجود وہ جسم عین اسی جگہ پر کیوں گرتا ہے جہاں سے اسے اچھالا گیا ہو۔
جمہور کی نظر میں سائنس کو ایک خاص مقام اس لئے  حاصل ہے کیونکہ یہ حقائق سے اخذ کیا گیا علم ہے لیکن  مشاہدے کا حواس کے ساتھ ساتھ ذہنی حالت اورعلمی پس منظر  پر انحصار اور مشاہداتی  بیانات کا نظریہ پر انحصار  کچھ ایسے عوامل ہیں جو  مشاہدات میں غلطی کے امکانات پر دلالت کرتے ہیں لیکن خوش آئند   بات یہ   ہے کہ  مشاہداتی بیانات کا تفصیلی جائزہ لے کر ممکنہ خامیوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے اور ایسے   اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جوان ممکنہ خامیوں کو ختم یا کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ ان اقدامات کی تفصیل میں جائے بغیر  مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشاہداتی بیانات یا حقائق  جن کی بنا پر  سائنس کی عمارت کھڑی کی جا سکے انہیں لازمی طور پر اس قابل ہونا چاہئیے کہ  ان بیانات کو  حواس   کے براہ راست  استعمال سے جانچا جاسکے۔ مکمل جانچ پڑتال  کے بعد ہی  ان بیانات کو سائنس کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔  یہاں براہ راست سے مراد یہ ہے کہ مشاہداتی بیانات کو پرکھنے کے لئے جو  معیار وضع کیا گیا ہے وہ قابل عمل ہو اور اس کے نتائج موضوعی  نہ ہوں یعنی  کسی  کی انفرادی رائے پر انحصار نہ کر تے ہوں۔
 اگرچہ ہم ایسے معیار وضع کر سکتے ہیں کہ مشاہداتی بیانات  موضوعی نہ رہیں  اور  معروضی  حقائق کا درجہ حاصل کر لیں لیکن اس کے بعد بھی اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ یہ حقائق  جانچ پڑتال کے نئے معیارات پر بھی پورا اتریں گے۔کوئی نہیں جانتا کہ آج کے معروضی حقائق کل  آنے والی  معلومات اور نت نئی ٹیکنالوجی   کے بعد بھی حقائق ہی رہیں گے ۔ ان حقائق کے مستقبل میں غلط ثابت ہونے کے امکانات بحرحال موجود رہتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ  ماضی میں حقیقت سمجھا جانے والا مشاہداتی بیان ”زمین ساکن ہے “  نئی معلومات اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔
مشاہداتی بیانات  کو اور زیادہ قابل اعتبار بنانے کے لئے اگلا قدم یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ ہم مشاہداتی  بیانات کی سچائی جاننے کے لئے تجربات وضع کریں۔ لیکن یاد رکھیئے کہ یہاں بات مشاہداتی  بیانات کی ہو رہی ہے۔ عام طور پر سائنسی ادب میں تجربات کی بات  مفروضے یا نظرئیے کی تجرباتی  تصدیق کے لئے جاتی ہے اور  مشاہداتی بیانات کی سچائی پرکھنے کے لئے تجربات کی اہمیت کو اتنا واضح نہیں کیا جاتا لیکن  اگر کچھ تجربات کر کے مشاہداتی بیانات پر ہمارا یقین پختہ ہوتا ہے تو اس میں حرج ہی  کیا ہے ؟ آخرکار ان بیانات کی بنیاد  پر ہی تو ہم نے سائنس کی عمارت کھڑی کرنی ہے۔
 قدرت میں موجود اکثر عوامل ایک سے زیادہ عناصر پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ فلاں عمل کسی عنصر پر کس حد تک انحصار کرتا ہے ایسا ہم تب تک نہیں کر سکتے جب تک باقی عناصر کے  اثرات ختم یا ممکنہ حد تک کم نہ کر دئیے جائیں۔ ظاہر ہے ان اثرات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں  قدرتی عمل میں مداخلت کرنا ہو گی ۔ اور اسی مداخلت کا نام تجربہ ہے۔ مختصرا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت میں موجود  عوامل ، جو ہمیں مشاہداتی حقائق اخذ کرنے میں کارآمد  ثابت ہوں ، کی وضاحت و صراحت کے لئے ضروری ہے کہ  قدرتی عوامل میں مداخلت کر کے صرف اسی عنصر کے اثر کا مشاھدہ کیا  جائےجس کا ہم مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور باقی عناصر جو وقتی طور پر ہمارے مطالعہ میں شامل نہیں انکا اثر کم سے کم کر دیا جائے۔ ایسا کرنے سے ہمارے مشاہداتی  بیانات کا معیار قابل ذکر حد تک بڑھ جائے گا اور  ان میں  موجود خامیوں ،جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ، سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔مثال کے پر ارسطو کے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بھاری اجسام ہلکے اجسام کے مقابلے میں زیادہ رفتار  کے ساتھ نیچے کی طرف گرتے ہیں۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ اگر دو مختلف کمیت والے اجسام کو  کسی خاص بلندی سے ایک ساتھ نیچے گرائیں تو وہ  بیک وقت زمین سے ٹکرائیں گے۔ آپ  میں کچھ لوگ میرے ساتھ اختلاف کر کے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ  اگر ایک کاغذ اور ایک کرکٹ بال کو اکٹھے گرایا جائے تو کرکٹ بال زمیں تک جلدی  پہنچ جائے گی۔ہم دونوں میں سے کس کا مشاہداتی  بیان ٹھیک ہے؟ اس  بات کا انحصار اس چیز پر ہے کہ ہم کس عمل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کسی چیز کے زمیں تک کے سفر میں ہوا کی رگڑ اور کشش ثقل  جیسے عوامل اس سفر کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں تو اگر آپ یہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں کہ  کشش ثقل  اس سفر کو کس  طرح متاثر کر رہی ہے تو ایسا  گرنے والے جسم پر ہوا کی رگڑ کے اثر کو زائل کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔عام حالات میں اگرچہ ہمارا مشاہدہ یہی ہو گا کہ کرکٹ بال کاغذ سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ زمین کی طرف گرے گی لیکن اگر کسی طرح ہم ہوا کے اثر کو زائل کر دیں تو ہمارے مشاہدے میں خاطرخواہ بہتری آ سکتی ہے۔ یہی وہ کام ہے جو گلیلیو نے کچھ صدیاں پہلے کر کے یہ بتایاتھا کہ مختلف کمیت والے اجسام ایک جیسی رفتار کے ساتھ زمیں کی طرف گرتے ہیں۔
اب تک ہم دیکھ چکے ہیں کہ مشاہداتی  بیانات  اخذ کرنے کے لئے محض حواس پر انحصار کرنے کی بجائے مختلف اقدامات سے ان بیانات کی ساکھ بہتر کی جا سکتی ہے ۔ ان اقدامات میں  قابل ذکر اقدام  تجربہ ہے  لیکن  بدقسمتی سے کچھ ایسے عوامل ہیں کہ تجربات کے بعد بھی مشاہداتی بیانات میں غلطی کے امکانات برقرار رہتے ہیں۔ اگر آپ تجربہ کرتے ہوئے مناسب احتیاطی تدابیر نہیں اپناتے، اگر آپ دوسرے عناصر کی ممکنہ مداخلت کم نہیں کر پاتے یا مداخلت کا صحیح اندازا لگانے میں غلطی کرتے ہیں،  جن آلات کو استعمال کرتے ہوئے پیمائش کی جا رہی ہے انکی صحیح پیمانہ بندی نہیں کر پاتے یا انکے کام کرنے کے اصول میں  کوئی خرابی ہے  تو یہ اور  اس طرح کے بہت سے عناصر  تجربے کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں چنانچہ ان تجربات کی بنیاد پر اخذ کئے گئے مشاہداتی  بیانات یا حقائق غلط ہو سکتے ہیں۔ ایک اور اہم چیز جو حقائق  میں غلطی کا باعث بن سکتی ہے وہ ہے تجربات کا نظریات پر انحصار ۔
(جاری ہے)



Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج