Skip to main content

Gradual Transitions are Non-Existent (Conflicting Reality in Fossil Record)


نیو ڈارونزم یا ماڈرن سینتھسز کے مطابق ارتقاء ایک ایسا پروسیس ہے جو نہایت آہستہ آہستہ (Gradualism) سیلیکشن پریشر کی سمت میں مجموعی طور پہ صرف فطری چناؤ کے ذریعے لمبے عرصے میں اکٹھی ہونے والی اڈاپٹیشنز سے ہوتا ہے۔ یہ ڈارونین تھیوری کا بنیادی اور اہم ترین دعویٰ (Tenet) ہے۔ ارتقاء کا نام لیتے ہی عوام کے ذہن میں یہ نقشہ آتا ہے۔ سائنس میڈیا بھی ایسی ہی وضاحتوں سے بھرا ہوا ہے کہ ارتقاء مسلسل اڈپٹیشنز کا سلسلہ ہے جو ماحولیاتی سیلیکشن پریشر کی سمت میں سروائو کرنے کا نام ہے اور اسی کے نتیجے میں میکرو ارتقاء ہوتا ہے اور نئی اقسام کے جاندار وجود میں آتے ہیں۔ جو جاندار ماحول سے مطابقت پیدا کر گئے وہ بچ گئے جو نہیں کر سکے وہ ناپید ہوگئے۔ ایسے ارتقائی ماڈل کو Paleontology کی
فیلڈ Directional Evolution اور عام فہم انداز میں ڈارونین ارتقاء کہتے ہیں۔
مثال کے طور پہ اگر ایک خشکی کا جاندار Indohyus پانی کے قریب رہنا شروع کر دے تو اس پہ اس ماحول میں بقا کا پریشر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس جاندار میں پانی میں رہنے والی اڈپٹیشنز اکھٹی ہونا شروع کر دیتی ہیں جو فطری چناؤ کرتا ہے جبکہ اڈاپٹیشنز رینڈم میوٹیشن سے آتی ہیں اور 20 ملین سال بعد یہ جاندار Blue Whale بن جاتا ہے۔ یہاں تھوڑی انفرمیشن فراہم کردوں کہ Indohyus کوئی ایک جاندار نہیں تھا بلکہ بہت سے مختلف جانداروں کے فاسلز کا ایک ملبہ دریافت ہوا تھا جس میں سے ڈارون پرست سائنسدانوں نے انتخاب کر کے ایک نیا جاندار اخذ کیا اور اسے Indohyus نام دیا۔ فاسلز کا یہ ملبہ دریافت بھی ہمالیہ کی پہاڑیوں پہ ہوا تھا نہ کہ کسی سمندر یا جھیل کے قریب۔ اس جاندار میں بھی کچھ خاص نہ تھا تو کان کی ایک ہڈی کی موٹائی سے یہ اخذ کیا گیا کہ یہ آرڈر Cetacea کی تقریباً 90 سپیشیز کا ارتقائی جد ہے۔ کیا یہ قابلِ اعتبار اور تسلی بخش ثبوت ہے؟ میری نظر میں تو بلکل بھی نہیں! ڈارونین ارتقاء کی پوری تاریخ غلط بیانیوں اور غلط شناخت کرنے سے بھری پڑی ہے۔ حال ہی میں ارتقائی سائنسدانوں نے سب سے چھوٹے پرندے نما ڈائنوسار Oculudentavis khaungraae کا فاسل دریافت کیا تھا جو مشہور فاسل آرکیاپٹرکس سے بھی قریبی مماثلت رکھتا تھا۔ بعد میں ایک غیر جانبدار سائنسدان نے حقائق سامنے لائے کہ یہ اصل میں ایک چھپکلی کا فاسل ہے۔
https://www.newscientist.com/article/2239211-tiny-bird-like-dinosaur-discovered-in-amber-might-actually-be-a-lizard/

اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ وقت میں رائج ڈارونین تھیوری کی عمارت آہستہ آہستہ ہونے والے Directional Evolution پہ کھڑی ہے اور اس تھیوری کے مطابق فاسل ریکارڈ ایسے ہی شواہد سے بھرا پڑا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
لیکن مسئلہ یہاں جدید سائنس ہے! جدید سائنس کے زریعے فاسل ریکارڈ پہ اپلائی کیے گئے جدید تحقیقاتی طریقہ کار سے جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ ڈارونین تھیوری کے اس بنیادی دعویٰ کو غلط ثابت کررہے ہیں۔
اس نکتہ کی وضاحت سے پہلے میں فاسل ریکارڈ میں پائے جانے والے تین اقسام کے ارتقائی ماڈلز کا مختصر تعارف کروانا چاہوں گا۔
ایک ماڈل ارتقائی ٹہراؤ (Stasis) ہے یعنی فاسل ریکارڈ میں جانداروں کا اپنی بنیادی ساخت، جسامت اور خصوصیات وغیرہ میں کوئی تبدیلی ظاہر نہ کرنا۔ اس موضوع پہ میں متعدد پوسٹس لکھ چکا ہوں کہ پرندے، مینڈک، آکٹوپس، بچھو، جیلی فش، مکڑی اور دیگر جاندار کروڑوں سال بعد بھی اپنی بنیادی ساخت میں تبدیل نہیں ہوئے۔
دوسرا ماڈل غیر سمتی اڈاپٹیشنز (Random Walk) ہے جس کا مطلب ہے کہ فاسل ریکارڈ میں جاندار ایسی تبدیلیاں ظاہر کرتے ہیں جن کی کوئی سمت نہیں ہوتی یعنی ہر آنے والی اڈپٹیشن یا فینوٹائپ ایک علیحدہ سمت میں ہوتی ہے جس کا پچھلی اڈپٹیشن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پہ جاندار کے جبڑے کی ساخت بدل گئی، پھر جاندار کی ٹانگیں لمبی ہو گئیں، پھر جاندار کا سائز بڑھ گیا وغیرہ وغیرہ۔ ان کا آپس میں کوئی ربط یا تعلق نہیں۔ ان کو عمومی طور پہ genetic drift کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔
تیسرا ماڈل Directional Evolution ہے جو ڈارونین ارتقاء کا بنیادی دعویٰ ہے جس سے میکرو ارتقاء ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت پوسٹ کی شروعات میں کی جا چکی ہے۔

پیراگراف 1:
ایک مشہور جریدے PNAS میں ایک اہم تحقیق پبلش ہوئی جس میں ڈارونین تھیوری کے ارتقائی ماڈل کو Statistical بنیادوں پہ ٹیسٹ کیا گیا۔ اس میں پبلشڈ سائنسی تحقیقات سے بڑی تعداد میں سینکڑوں اقسام کا فاسل سیکوئینس ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ فاسل سیکوئینس (Fossil Sequence) ان کو کہا جاتا ہے جن میں ایک ہی قسم کے جاندار کے فاسلز مختلف ادوار سے لیے جاتے ہیں اور پھر ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ اس جاندار کی ساخت وغیرہ میں کیا تبدیلی آئی۔ اس فاسل ڈیٹا کو Maximum likelihood طریقہ کار کے استعمال سے ٹیسٹ کیا گیا کہ ان فاسلز کی وضاحت کے لئے تین بنیادی ماڈلز میں سے کونسا ماڈل بہتر طور پہ سیلیکٹ ہوتا ہے۔
نتائج حیران تھے!
ڈارونین ارتقاء کا Directional Evolution والا ماڈل صرف 5% فاسلز کی وضاحت کے لئے سیلیکٹ ہوا۔
جبکہ 45% فیصد فاسلز میں ارتقائی ٹہراؤ (Stasis) والا ماڈل سیلیکٹ ہوا.
باقی 45% فاسلز کے لئے غیر سمتی اڈاپٹیشنز (Random walk) والا ماڈل سیلیکٹ ہوا۔
مختصراً کہا جائے تو فاسل ریکارڈ میں ڈارونین ارتقاء نہ ہونے کے برابر ہے۔ فاسل ریکارڈ صرف ارتقائی ٹہراؤ اور غیر سمتی اڈاپٹیشنز سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن سائنس میڈیا اور نصابی کتب آپ کی یہی برین واشنگ کرتی ہیں کہ فاسل ریکارڈ میں صرف ڈارونین ارتقاء نظر آتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔
اس تحقیق کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ڈارونین ارتقاء کے بنیادی دعوے Gradualism کو کبھی بھی غیر جانبدارانہ statistical بنیادوں پہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ دوسرا فاسل ریکارڈ میں آہستہ آہستہ تدریجی ارتقاء اور ارتقائی ٹھہراؤ ہمیشہ ایک متنازع موضوع رہا ہے۔ ماضی میں آہستہ آہستہ ہونے والے تدریجی ارتقاء کو خود ساختہ subjective وضاحتوں سے ثابت کیا جاتا تھا۔
"Evolution in these traits was rarely directional; in only 5% of fossil sequences was directional evolution the most strongly supported of the three modes of change. The remaining 95% of sequences were divided nearly equally between random walks and stasis."
https://www.pnas.org/content/104/47/18404

پیراگراف 2:
اس تحقیق سے ایک اور اہم نکتہ سامنے آیا کہ ارتقائی پہلو سے کسی جاندار کا اپنی جسامت میں بہت بڑا ہوجانا یا چھوٹا ہوجانا زیادہ امکان رکھتا ہے بنسبت کسی جاندار کی ساخت کا بدل جانا۔
اس کی بہت سی مثالیں بھی فاسل ریکارڈ میں موجود ہیں جن میں بڑی جسامت کے مگر مچھ، بڑی جسامت کے سانپ، بڑی جسامت کے کچھوے، بڑی جسامت کی ڈریگن فلائی اور دیگر بے شمار جاندار شامل ہیں۔ لہذا انسانوں کی کسی آبادی کا اپنی جسامت میں بہت بڑا ہوجانا خود ارتقائی پہلو سے زیادہ امکان رکھتا ہے اور ساخت میں تبدیلی کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
"Variables related to body size were significantly less likely than shape traits to experience stasis. This finding is in accord with previous suggestions that size may be more evolutionarily labile than shape...."
https://www.pnas.org/content/104/47/18404

پیراگراف 3:
ایک جگہ ڈارونین ارتقاء کے بارے کہا گیا کہ سیلیکشن پریشر کی سمت میں آہستہ آہستہ ہونے والے تدریجی ارتقاء کو روایتی طور پہ فاسل ریکارڈ کا عمومی پیٹرن تصور کیا جاتا تھا لیکن اب غیر جانبدارانہ statistical تحقیقات سے یہ بات غلط ثابت ہوچکی ہے۔ کیونکہ پبلشڈ فاسلز میں اس ڈارونین ارتقاء کے ماڈل کی سپورٹ صرف اور صرف 5% ہے۔
"Directional evolution generates trends within lineages and, traditionally at least, was thought to be common in the fossil record."
https://www.pnas.org/content/104/47/18404

پیراگراف 4:
سائنسی پیپر میں اس نکتہ کو بھی ڈسکس کیا گیا کہ یہ غیر جانبدار نتائج جو ایک بڑے فاسل ڈیٹا پہ تحقیق کے زریعے سامنے آئے ہیں یہ باقی تمام فاسل ڈیٹا پہ بھی لاگو ہونگے اور اس کا بھی امکان ہے کہ تمام پبلشڈ فاسل دیٹا میں ڈارونین ارتقاء کے ماڈل کی سپورٹ 5% سے بھی کم ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدانوں میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ جن فاسلز میں ڈارونین ارتقاء کا امکان موجود ہو صرف انہی فاسلز پہ تحقیق کی جاتی ہے اور پھر پبلش کی جاتی ہے۔ یعنی Selection Bias موجود ہے۔ لہزا اس پہلو سے دیکھا جائے تو حقیقت میں ڈارونین ارتقاء کے آہستہ آہستہ ہونے والے تدریجی ماڈل کی سپورٹ تمام فاسل ڈیٹا میں 5% سے بھی کم ہونی چاہیے کیونکہ جانبداری کی وجہ سے یہ زیادہ آئی ہے۔
"Although not exhaustive, the large database of evolutionary sequences analyzed here is likely to be representative of the published paleontological literature. Moreover, because researchers have preferentially studied traits and lineages with prior evidence for gradual change، the 5% incidence of directionality is likely to be an overestimate."
https://www.pnas.org/content/104/47/18404

پیراگراف 5:
اس سائنسی پیپر میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ اس تحقیق میں ڈارونین ارتقاء کے ماڈل parameters ایسے رکھے گئے تھے کہ اگر تھوڑی سے ساختی تبدیلی بھی ڈارونیں ارتقائی ماڈل پہ ظاہر ہو تو فوراً ڈارونین ارتقاء کا ماڈل سیلیکٹ ہو جائے۔ اتنی رعایت دینے کے باوجود بھی ڈارونین ارتقاء کے ماڈل کی سپورٹ 5% سے بھی کم آئی۔
"Directional evolution as modeled here assumes only that the average evolutionary increment differs from zero. As a result, this model can be strongly supported even when there is only a slight excess of microevolutionary changes in one direction over the other."
https://www.pnas.org/content/104/47/18404

پیراگراف 6:
جیالوجیسٹ Michael Rampino جو نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں انہوں نے جریدے Historical Biology میں ایک تحقیق پبلش کی ہے جس کے مطابق ڈارونین تھیوری کے آہستہ آہستہ ہونے والے ارتقاء کا کوئی بھی ثبوت فاسل ریکارڈ میں موجود نہیں۔ اس کو عام فہم انداز میں نیچے دیے گئے لنک سے پڑھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ Michael Rampino کا کہنا تھا کہ فطری چناؤ کا اصول ڈارون سے پہلے سکاٹ لینڈ کے سائنسدان Patrick Matthew نے دریافت کیا تھا۔ نہ صرف دریافت کیا تھا بلکہ اس نے ایک تھیوری بھی پیش کی تھی جس کے مطابق فاسل ریکارڈ میں جانداروں کا ارتقائی ٹہراؤ (stasis) ایک عمومی پیٹرن ہے اور معدومیت کے واقعات کے بعد نئی اقسام کے جاندار نہایت تیز رفتار سے منظر عام پہ آتے ہیں۔
پروفیسر Michael Rampino کے مطابق یہ تھیوری فاسل ریکارڈ کو صحیح سے بیان کرتی ہے لہذا اس پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نیویارک یونیورسٹی کی ویبسائٹ پہ موجود آرٹیکل:
https://www.nyu.edu/about/news-publications/news/2010/november/darwins-theory-of-gradual-evolution-not-supported-by-geological-history-nyu-scientist-concludes-.html

سائنسی تحقیقات آپ کے سامنے ہیں۔
ڈارونین ارتقاء کی اس سے زیادہ زلت آمیز ناکامی اور کیا ہوگی کہ ہر طرح کی جانبداری اور Selection Bias کے باوجود پبلشڈ فاسل ڈیٹا میں ڈارونین ارتقاء کی سپورٹ غیر جانبدارانہ تحقیقات کی وجہ سے 5% سے بھی کم آئی۔ جبکہ ڈارونین ارتقاء کو دھوکے بازی سے فاسل ریکارڈ کا عمومی پیٹرن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
میں اس موضوع پہ مزید سائنسی پیپرز بھی شامل کر سکتا ہوں لیکن پوسٹ بہت طویل ہو جائے گی۔
ڈارونین ارتقاء ایک مردہ تھیوری ہے۔ اس فضول فریم ورک سے چھٹکارا پانے کا وقت قریب ا چکا ہے۔ ڈارونین تھیوری کے حق میں فاسل آجتک نہ مل سکے لیکن جدید سائنسی تحقیقات کے نیچے دب کر یہ خود فاسل ضرور بنی گی۔

--------------------------------------------------
Written and Researched by
Sohaib Zobair

Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج