Skip to main content

Unsupported Dogma of Gradual Evolution (Sudden Appearance of Species)


موجودہ دور میں ایک بات دیکھنے میں آتی ہے کہ پاپولر سائنس لٹریچر میں ارتقاء پہ نیو ڈارونزم کی تھیوری کی ناکامیاں چھپا کر اسے ناجائز طور پہ ناقابل تردید حقیقت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے یعنی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھایا جاتا ہے۔ اس طرح کی یک طرفہ انفارمیشن تک عام لوگوں کی رسائی ہے جس سے عوام گمراہ ہوتی ہے۔ جبکہ ارتقاء پہ اورجنل سورسز اور سائنس پبلیکشنز میں نیو ڈارونزم موجودہ دور میں متضاد وضاحتوں میں الجھی ہوئی ایک سوچ ہے جس کے بنیادی تصورات یا تو غلط ثابت ہو رہے ہیں یا ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی آجتک سائنسی سند کا درجہ نہیں پا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماڈرن سائنس کے اس دور میں نیو ڈارونزم کا وضاحتی فریم ورک ناکامی کا شکار ہے۔

نیو ڈارونزم کا ایک ایسا ہی بنیادی اور اہم ترین تصور جانداروں کا تدریجی ارتقاء (Gradual Evolution) ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نیو ڈارونزم کا مطلب ہی یہ ہے کہ جاندار آہستہ آہستہ بڑے لمبے عرصے میں مختلف شکلوں، جانداروں اور سپیشیز میں ارتقاء کرتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یعنی ایک جاندار میں لاکھوں کروڑوں سالوں میں چھوٹی چھوٹی مفید جنیاتی تبدیلیاں ہوتی ہیں جن کو فطری چناؤ اکھٹا کرتا رہتا ہے اور لمبے عرصے بعد ایک دوسرا جاندار وجود میں آتا ہے۔ نیو ڈارونین فریم ورک کے مطابق کسی بھی جاندار کی کوئی خاصیت یا نئی شپیشیز اچانک سے نمودار نہیں ہوتیں۔ نیو ڈارونین فریم ورک میں یہ ناممکنات میں سے ہے۔

ارتقائی سائنس میں یہ اہم تصور Red Queen Hypothesis کہلاتا ہے جو 1973 میں سامنے آیا۔ یہ تدریجی ارتقاء کا تصور ایسے پیش کرتا ہے کہ ارتقاء میں ماحول کی تبدیلی سے زیادہ اہم چیز جانداروں کے آپسی تعلق سے پیدا ہونے والا پریشر ہے۔ جانداروں کے درمیان مسلسل competition کا ماحول ہر وقت موجود ہے۔ جانداروں کے درمیان مسلسل زندہ رہنے کی ڈور لگی ہوئی۔ قدرتی ماحول میں ہر شپیشیز کا دوسرے بہت سے مختلف جانداروں کے ساتھ  باہمی سروائیول کا رشتہ ہے۔ جس کی وجہ سے اگر ایک سپیشیز ارتقاء کرتی ہےتو اس سے منسلکہ دوسری سپیشیز پہ ارتقائی پریشر رہتا اور ان کو بھی آہستہ آہستہ ارتقاء کرنا پڑتا ہے۔ لحاظ قدرتی ماحول میں تمام جاندار ایک جال اور نیٹورک کی طرح ہیں جو ایک دوسرے پہ پریشر ڈالتے ہیں اور مل کر آہستہ آہستہ ارتقاء کرتے رہتے ہیں، جو کبھی نہیں رکتا!
The Red Queen hypothesis rests on the idea that species must continuously evolve just to hang on to their ecological niche. That gradual evolution is driven by the constant genetic churn of sexual selection."
https://www.nature.com/news/2009/091209/full/news.2009.1134.html

اسی تدریجی ارتقاء Gradual Evolution سے بہت لمبے عرصے میں نئے جاندار وجود میں آتے ہیں۔  سروائول کی اس ڈور کو سمجھنے کے لئے ایک  ایسکلیٹر escalator کو ذہن میں لائیں جو نیچے کی طرف چل رہا ہے اور اس کی چوڑائی سو فٹ فرض کریں۔ اس پہ بہت سے جاندار ہیں جو اوپر کی طرف چڑھ رہے ہیں۔ ایسکلیٹر کی نیچے کی جانب سپیڈ کو جانداروں کا ایک دوسرے پہ سیلیکشن پریشر سمجھیں جو ہر وقت موجود ہے اور جانداروں کا اوپر کی طرف ایسکلیٹر پہ قدم بہ قدم چڑھنا ان کا تدریجی ارتقاء ہے۔
جو جاندار ایسکلیٹر پہ اس کی سپیڈ کے مطابق اوپر کی جانب چڑھتا رہے گا وہ اس ریس میں شامل رہے گا۔ جو کسی وجہ سے پیچھے رہ گیا ایسکلیٹر اسے نیچے کی جانب دھکیل کر سروائیول کی ڈور سے باہر کر دے گا یعنی وہ جاندار نا پید ہو جائے گا۔
اس ارتقائی سروائیول کی ریس میں کوئی بھی  جاندار اپنے اردگرد ماحول سے زیادہ ارتقاء نہیں کر سکتا بلکہ صرف اتنا ارتقاء ممکن ہے جتنا اس کے زندہ رہنے کی کافی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا اگر ایک جاندار کسی ماحول میں زیادہ دیر رہے تو اس کی سروائول capacity بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے جانداروں کے اس نیٹورک میں بہت لمبا عرصہ گزارنے والی شپیشیز کے نا پید ہونے کے بھی اتنے ہی امکانات ہیں جتنے ایک نئی سپیشیز کے ناپید ہونے کے ہوتے ہیں۔ جانداروں کے اس باہمی جال میں ہر جاندار Extinction کے دہانے پر کھڑا ہے چاہے سو ملین سال پرانا ہو یا پانچ منٹ پرانا۔ جیسے ہی کوئی جاندار اس ارتقائی سروائیول کی ریس میں ڈھیلا پڑا وہ ریس سے باہر نکال دیا جائے۔
 اس ارتقائی تصور کی مثال شکار اور شکاری کے تعلق سے دی جاسکتی ہے۔ اگر ہرن میں کوئی ایسی رینڈم میوٹیشن ہو جو اس کو بہتر دیکھنے یا بھاگنے یا چھپنے میں مدد دے تو شیر کو بھی زندہ رہنے کے لیے کسی ایسی رینڈم میوٹیشن کی ضرورت ہے جو کسی طرح ہرن کو اس کی خوراک بنائے وگرنہ شیر سروائو نہیں کر سکے گا۔
اسی طرح اگر کسی شیر میں چھپنے، بھاگنے یا اچھے انداز میں گھات لگانے کا رویہ ارتقاء کرے تو ہرن کو سروائو کرنے کے لئے کسی رینڈم میوٹیشن کی ضرورت ہوگی جو اسے ارتقاء یافتہ شیر سے بچائے۔ ارتقائی سوچ کے مطابق یہی سلسلہ آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے اور لمبے عرصے میں نئی جاندار وجود میں آتے ہیں۔
اس ارتقائی مفروضے کی دوسری مثال جانداروں کی فوڈ چین (Food Chain) سے دی جا سکتی ہے۔ ایک کیڑا ہے جو درخت کے پتے کھاتا ہے، اس کیڑے کو مینڈک کھاتا ہے، اس مینڈک کو سانپ کھاتا ہے، اس سانپ کو عقاب کھاتا ہے۔ اگر درخت کے پتے کسی دفاعی تبدیلی کا ارتقاء کرتے ہیں تو کیڑے سے لے کر عقاب تک سب کسی حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
مزید اس لنک سے،
https://royalsocietypublishing.org/doi/full/10.1098/rspb.2014.1382
----------------------------------------------------

آہستہ آہستہ تدریجی ارتقاء کی جو وضاحت Red Queen Hypothesis دیتا ہے سننے میں بہت دلچسپ معلوم ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سائنس صرف مفروضوں اور فلسفوں پہ نہیں چلتی۔
کسی مفروضے کے قابل قبول بننے کے لئے اس کی حقائق سے مطابقت ہونا لازمی ہے۔ ڈیٹا اور تجربہ کے ذریعے متبادل وضاحتی ماڈلز پہ تحقیق کرنا بھی ایک ضروری پروسیجر ہے۔
ماڈرن سائنس کے مطابق آہستہ آہستہ ارتقاء کا غیر ثابت شدہ گمان فالسیفائڈ (Falsified) ہوچکا ہے اور ایک نئی متبادل وضاحت سامنے آئی ہے جس کے مطابق سپیشیز کسی نایاب واقعہ کی وجہ سے اچانک ظہور پزیر ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں سائنس جریدے nature سے دو حوالہ جات پیش کروں گا۔

سائنس جریدے nature میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ نیو ڈارونزم میں آہستہ آہستہ اور مسلسل ارتقاء کو اہم مقام حاصل ہے لیکن حیران کن طور پہ آجتک اس آہستہ آہستہ ارتقاء کے دعویٰ کو سائنسی بنیاد پہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا کہ حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور نہ ہی آج تک آہستہ آہستہ ارتقاء کی وضاحت کو دیگر مختلف وضاحتوں کے ساتھ موازناتی طور پہ ٹیسٹ کیا گیا یہ جاننے کے لئے کہ کونسی وضاحت موجود ڈیٹا پہ بہتر طور پہ فٹ آتی ہے۔
 یہ نہایت تشویش ناک بات ہے کہ تدریجی ارتقاء کے وضاحتی ماڈل کا دیگر وضاحتوں کے ساتھ آجتک کوئی موازنہ ہی نہیں کیا گیا جبکہ سائنس کا یہ بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی قسم کے ڈیٹا کو بہت سے مختلف وضاحتی ماڈلز کے ساتھ ٹیسٹ کیا جاتا ہے پھر ان سب میں جو بہتر طور پہ ڈیٹا کی وضاحت کرے اسے ٹھیک مانا جاتا ہے۔ نہ صرف اس وضاحتی ماڈل کو آجتک سائنسی بنیاد پہ ٹیسٹ "نہیں" کیا گیا بلکہ آجتک اس کا کوئی بھی میکانزم سامنے نہیں آیا کہ مسلسل ارتقاء کس میکنزم کے تحت ہوتا رہتا ہے۔
(اگر آپ کی نظر میں حقائق کی اہمیت ہے اور ارتقاء کے موضوع پہ سچ کی تلاش میں ہیں تو صرف یہ پیرگراف آپ کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔)
"The Red Queen describes a view of nature in which species continually evolve but do not become better adapted. It is one of the more distinctive metaphors of evolutionary biology, but no test of its claim that speciation occurs at a constant rate has ever been made against competing models that can predict virtually identical outcomes, nor has any mechanism been proposed that could cause the constant-rate phenomenon."
https://www.nature.com/articles/nature08630#ref2

چونکہ آہستہ آہستہ اور مسلسل ارتقاء کو آجتک سائنسی بنیادوں پہ ایمانداری سے ٹیسٹ نہیں کیا گیا لہذا ایماندار سائنسدانوں نے نیوٹرل ڈیٹا اور ارتقائی تاریخ کو چار مختلف وضاحتی ماڈلز کے ساتھ موازناتی طور پہ ٹیسٹ کیا اور نتیجہ حیران کن طور پہ مختلف آیا۔ یہ مفروضہ کہ جاندار فطری چناؤ کے زریعے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں اکٹھا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نئے جانداروں میں ارتقاء کرتے ہیں، یہ صرف اور صرف 8 فیصد ڈیٹا اور ارتقائی تاریخ پہ فٹ آتا ہے۔ جبکہ 80 فیصد ڈیٹا اس وضاحتی ماڈل کو سپورٹ کرتا ہے کہ نئی سپیشیز کے وجود میں آنے کی وجہ
 ایک "اچانک" اور "نایاب" واقعہ ہوتا ہے۔
یعنی سپشییز آہستہ آہستہ مفید تبدیلیاں اکٹھی کر کے وجود میں نہیں آتیں۔
 بلکہ ایک "single rare event" کی وجہ سے اچانک ظاہر ہوتی ہیں۔
نیچر جریدہ سے ملاحظہ کریں،
"When the team compared how well the four models fitted the groups' evolutionary histories, the Red Queen idea that species form through a catalogue of incremental changes fitted no more than 8% of the family trees.
Conversely, almost 80% of the trees fitted a model in which new species emerge from single rare evolutionary events."
https://www.nature.com/news/2009/091209/full/news.2009.1134.html

جیسا کہ یہ واضح ہو چکا ہوں کہ نئی سائنسی تحقیقات کے مطابق نیو ڈارونزم کا تدریجی ارتقاء (Gradual Evolution) کا غیر ثابت شدہ وضاحتی ماڈل فالسیفائڈ ہوچکا ہے اور جاندار چھوٹی چھوٹی مفید تبدیلیاں فطری چناؤ کے ذریعے اکٹھی کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اور مسلسل ارتقاء کے زریعے لمبے عرصے میں وجود میں نہیں آتے۔
بلکہ نئے جاندار اور نئی شپیشیز
"ایک نایاب واقعہ" کے طور پہ ظہور پذیر ہوتے ہیں اور اس وضاحتی ماڈل کو 80 فیصد ڈیٹا کی سپورٹ حاصل ہے۔
سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لئے سیکٹروں جانداروں کے گروپس اور ان کی ہزاروں سپیشیز کے ڈیٹا کو شامل کیا جن میں جانور، پودے، یک خلوی جاندار، پھول، مکھی، کچھوے، لومڑی اور دیگر ہر طرح کے جاندار شامل تھے۔
یہاں ایک چیز واضح کردوں کہ ڈیٹا (Data) وہی ہے صرف ڈیٹا کی وضاحت (Interpretation) بدلی گئی گئی ہے اور ارتقاء کا ایک بنیادی تصور غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس باقی کا ڈیٹا جو ارتقاء پہ اس وقت موجود ہے اگر اس کو بھی مختلف وضاحتی ماڈلز پہ ٹیسٹ کیا جائے تو ارتقاء کا پورا تصور مکمل طور پہ تبدیل ہو کر ایک مکمل طور پہ مختلف تصور سامنے آنے کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔
مزید نیچر جریدے نے یہ نکتہ واضح کیا کہ نئی سائنسی تحقیق عمومی طور پہ درست تسلیم کیے جانے والے تدریجی ارتقاء کے مفروضے کے خلاف شواہد فراہم کرتی ہے۔
"New species might arise as a result of single rare events, rather than through the gradual accumulation of many small changes over time, according to a study of thousands of species and their evolutionary family trees.
This contradicts a widely accepted theory of how speciation occurs: that species are continually changing to keep pace with their environment, and that new species emerge as these changes accrue."
https://www.nature.com/news/2009/091209/full/news.2009.1134.html

اس تحقیق کو پبلش کرنے والے ایماندار سائنسدانوں سے جب پوچھا گیا کہ اس تحقیق اور وضاحت کے ارتقاء کی فیلڈ پہ کیا اثرات پڑیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ،
"ہماری تحقیق اور سائنسی شواہد موجودہ ارتقائی سوچ کے خلاف ہیں کیونکہ اکثر ارتقائی سائنسدانوں کے ذہن وہی پرانا ڈارونی ارتقاء کا تصور ہے۔ جبکہ ہماری تحقیق یہ ثابت کرتی ہے فطری چناؤ سے تدریجی ارتقاء کا تصور شاید غلط ثابت ہوچکا ہے۔"
"The team's findings might stir things up in the world of evolutionary biology. "It really goes against the grain because most of us have this Darwinian view of speciation," says Pagel. "What we're saying is that to think about natural selection as the cause of speciation is perhaps wrong."
https://www.nature.com/news/2009/091209/full/news.2009.1134.html

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ماڈرن سائنس ائے روز نیو ڈارونین فریم ورک کے بنیادی دعویٰ جات کو غلط ثابت کر رہی ہے اور وقت اچکا ہے کہ سائنس کمیونٹی حقائق عوام کے سامنے لائیں اور اس چیز کا جواب دیں کہ موجودہ ارتقائی فریم ورک کے خلاف اتنے سائنسی شواہد آنے کے باوجود کیوں ابھی تک اس سے چپکی ہوئی ہے؟  نیو ڈارونزم جیسی بوسیدہ اور مرتی ہوئی تھیوری کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ پرانی سوچ کو ترک کیا جائے اور نئی سوچ سے سائنس کی ترقی کا سفر جاری رہے۔
------------------------------------------------
Written and Researched by
Sohaib Zobair


Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج