Skip to main content

|US Army and UFO's|


ناقابلِ شناخت اڑتی ہوئی چیزیں جنہیں  (Unidentified Flying Objects UFO's) بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا مظہر ہے جس میں کچھ عجیب ہیئت کی چیزیں اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی شکل گول روشنی کے دائروں سے لے کر دھات کے بنے کیوب جیسی ہو سکتیں ہیں۔ ان سب میں ایک خاصیت ضرور موجود ہوتی ہے۔ ان کے اڑنے کا انداز، تیز رفتاری اور دائیں بائیں مڑنے کا طریقہ کسی بھی انسانی ٹیکنالوجی سے مماثلت نہیں رکھتا۔ لہذا ان کو ناقابلِ شناخت اڑتی چیزوں کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ufo موجود ہیں سوال یہ ہے کہ ufo کیا ہیں؟

ان کو دیکھنے کی شہادتیں اور ویڈیوز نہ صرف عام لوگوں سے موصول ہوتی ہیں بلکہ امریکی فوج کے ٹرینڈ پائلٹس تک ان کو دیکھنے اور ان سے آمنا سامنا ہونے کے متعدد واقعات کو رپورٹ کر چکے ہیں۔
مثال کے طور پہ 2014 سے 2015 کے دوران امریکی بحری بیڑے Theodore Roosevelt کو ان ufo  سے سامنا کرنا پڑا۔ اس بحری بیڑے سے جب امریکی پائلٹس پرواز کے لئے نکلتے تو ان کے ریڈار، انفراریڈ کیمرہ اور دیگر آلات ان عجیب غریب اڑتی ہوئی چیزوں کی موجودگی کو کنفرم کرتے۔ ایسے واقعات کئ مہینے تک چلتے رہے۔ 6 امریکی پائلٹس ان کے گواہ ہیں جن میں سے دو پائلٹس نے ایک ڈاکیومنٹری کے دوران اپنے بیانات بھی ریکارڈ کرائے۔ ایک لیفٹیننٹ رینک کے امریکی پائلٹ کے مطابق ان اڑتی ہوئی چیزوں کے نہ جہاز جیسے پر تھے، نہ جہاز جیسی دم تھی اور کوئی انجن وغیرہ تھا لیکن ان کے ہوائی کرتب ناممکن حد تک حیران کن تھے۔
تفصیل کے لئے اس کو وزٹ کریں،
https://www.livescience.com/65585-ufo-sightings-us-pilots.html

اس کے علاؤہ بہت سی رپورٹس امریکی پائلٹس کی طرف سے موصول ہوئیں جس کی بنا پہ پینٹاگون کو ufo یا ناقابلِ شناخت اڑتی چیزوں کو سنجیدگی سے لینا پڑا اور پینٹاگون نے ایک خفیہ پروگرام تشکیل دیا جس کا کام پائلٹس کی جانب سے موصول ہونے والی ufo ریپورٹس اور ریڈار ڈیٹا کا تجزیہ کرنا اور ان پہ تحقیق کرنا تھا اس خفیہ پروگرام کو
Advanced Aerospace Threat Identification Program (AATIP)
کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام کے لئے ایک بڑی رقم مختص کی گئی۔ اس پروگرام کی تمام تحقیقات خفیہ تھیں اور عوام کو ان سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ پھر 2012 میں خبر سامنے آئی کہ اس پروگرام کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد 2017 میں پھر ایک خبر سامنے آئی کہ یہ پروگرام اور ufo پہ خفیہ تحقیقات ختم نہیں ہوئیں بلکہ ابھی تک چل رہیں ہیں۔ اس کے ساتھ پینٹاگون نے امریکی پائلٹس کی دو ویڈیوز بمہ اڈیو پبلک کیں جن میں دوران پرواز پائلٹس کے ufo کو دیکھنے کے بارے گفتگو کی ریکارڈنگ تھی۔ اس گفتگو میں پائلٹس یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ہمارے سامنے جو ufo ہیں ان کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک لمحے میں ہزاروں میل کا سفر طے کر سکتی ہیں۔
امریکی پائلٹس کی ریکارڈنگ کو پبلک کرنے پہ Search for Extraterrestrial Intelligence (SETI) کے سینیئر فلکیات دان Seth Shostak کا کہنا ہے کہ ایک اچھا قدم ہے اس سے عوام کو ایلینز اور ناقابل شناخت اڑتی چیزوں بارے حقائق جاننے کا موقع ملے گا۔
مزید تفصیل اس لنک سے،
https://www.livescience.com/65387-navy-ufo-sightings.html

پینٹاگان کے خفیہ پروگرام (AATIP) کے انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے مطابق جن ufo کا مشاہدہ اور تحقیق انہوں نے کی وہ نا ممکن حد تک سپیڈ اور ٹیکنالوجی کی حامل تھیں۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ufo دائیں بائیں جاتیں، راستہ تبدیل کرتیں یا سپیڈ پکڑتی دیکھی گئیں اس حساب سے ان اڑتی چیزوں کو 400-500 تک g-force یعنی گریوٹیشنل فورس کو برداشت کرنا پڑتا ہوگا جبکہ امریکی جہازوں میں سب سے زیادہ manoeuvrable جہاز کی g-force برداشت کرنے کی صلاحیت صرف 18g تک ہے اور انسان زیادہ سے زیادہ 9g تک گروٹیشنل فورس برداشت کر سکتا ہے وہ بھی ایک مختصر وقت تک۔ امریکی انٹیلیجنس آفیسر کے مطابق یہ ٹیکنالوجی یا مظہر ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
مزید اس لنک سے،
https://www.livescience.com/65596-ufo-pentagon-history-channel.html

اس کے علاؤہ ناسا کے ریسرچ سائنسدان Kevin Knuth کا کہنا ہے کہ ufo حقائق پہ مبنی چیزیں ہیں اور وقت ا گیا ہے ہمیں ان پہ سنجیدگی سے ریسرچ کرنی چاہیے۔ اکثر اوقات سائنسدان ان موضوعات میں دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے گا اور ان کی reputation خراب ہو جائے گی۔ یہ تمسخرانہ رویہ سائنسی طریقہ کار اور انسانی تجسس کے خلاف ہے اور ہمیں ایک تنگ نظر سوچ سے ہٹ کر اپنی سوچ وسیع کرنی پڑے گی۔ اس دنیا اور کائنات بہت سی ایسی چیزیں موجود ہو سکتی ہیں جن کا شاید ہمیں وہم گمان بھی نہ ہو!
مزید تفصیل اس لنک سے،
https://cosmosmagazine.com/space/why-we-should-take-ufo-sightings-seriously

حال ہی میں امریکی گورنمنٹ کے تین سینیٹرز کو ایک خفیہ بریفننگ میں پینٹاگان کے نمائندوں نے ufo کے بارے اب تک کی تمام تحقیقات، حقائق اور معلومات سے آگاہ کیا۔
تفصیل اس لنک سے،
https://www.politico.com/story/2019/06/19/warner-classified-briefing-ufos-1544273

مذید معلومات کے لئے نیچے دیئے گئے لنکس وزٹ کریں۔
https://www.washingtonpost.com/world/national-security/navy-no-release-of-ufo-information-to-the-general-public-expected/2019/05/01/25ef6426-6b82-11e9-9d56-1c0cf2c7ac04_story.html?noredirect=on

https://www.washingtonpost.com/national-security/2019/04/24/how-angry-pilots-got-navy-stop-dismissing-ufo-sightings/?tid=a_inl_manual&noredirect=on

https://www.nytimes.com/2017/12/16/us/politics/pentagon-program-ufo-harry-reid.html

-----------------------------------------------
Sohaib Zobair

Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج