Skip to main content

Posts

Featured Post

Gradual Transitions are Non-Existent (Conflicting Reality in Fossil Record)

Recent posts

#Dandruff خشکی سکری !

تحریر: حسن خلیل چیمہ ________________________________________________ آج کل سردیاں چل رہی ہیں اور بہت سے لوگوں کے بالوں سے سفید رنگ کے ذرات نکلتے ہیں یا پھر کالے بالوں کے درمیان سفید ذرات نظر آتے ہیں۔ مختلف کاسمیٹکس کمپنیاں جو شیمپو پراڈکٹس بناتی ہیں وہ سردیوں کے موسم میں خشکی سکری کو بنیاد بنا کر یا پھر یوں کہیں کہ کوئی بہت بڑی بیماری بنا کر پیش کرتی ہیں اور اپنا شیمو یا پروڈکٹس بیچتی ہیں ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ خشکی سکری کوئی بیماری ہے نا یہ کسی ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہے اور نا ہی خشکی سکری سے آپ کے بالوں کو کسی قسم کا فرق پڑتا ہے یا زیادہ خارش کرنے سے سکیلپ زخمی ہوتا ہے لیکن ایسا عموماً بہت کم لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ! سب سے پہلے کہ خشکی کیا ہے اور کیسے ہوتی ہے ؟ سب سے پہلی وجہ آپ کی جلد کا خشک ہو جانا ہے یعنی ڈرائی سکن ہونے کی وجہ سے خشکی ہو جاتی ہے دوسری وجہ آپ کسی ایسے ہیر پروڈکٹ کا استعمال کر رہے ہیں جو آپ کے سکیلپ کو خراب کر رہا ہے یا پھر سکیلپ کے لئے نقصاندہ ہے جیسے لگانے سے سکیلپ میں الرجی پیدا ہوتی ہے جو بعد میں خشکی سکری کی وجہ بنتی ہے ۔ ان پروڈکٹس می

#bio_gas #گوبر_گیس

کچھ دہائیاں پہلے انڈیا کی دیہات میں قدرتی گیس اور توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک تکنیک استعمال ہوئی۔ اس تکنیک کو "گوبر گیس" کے نام سے کافی پذیرائی ملی۔ یہ تکنیک نئی تو نہیں تھی لیکن اس تکنیک سے باقاعدہ طور پر توانائی کی ضروریات پوری کرنا نیا تھا۔ سترہویں صدی میں بھی اس تکنیک کو (Anaerobic digestion) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اب تو دنیا کے کئی ممالک میں اس تکنیک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص کر دیہات میں جہاں گرڈ سے توانائی کی ترسیل مشکل ہوتی ہے۔ وہاں حکومتی تعاون و ذاتی طور پر گوبر گیس پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ --------------------------  سائنس کے شروعاتی اسباق میں ہمیں   (fermentation) کا پڑھایا جاتا ہے۔ "بیکٹیریا  ، خمیر وغیرہ کے ذریعے نامیاتی اشیاء کی کیمیائی توڑ پھوڑ کو فرمنٹیشن کہا جاتا ہے۔ جب اسی فرمنٹیشن کو آکسیجن کی غیر موجودگی میں انجام دیا جائے تب یہ پراسس (Anaerobic digestion) کہلائے گا۔ فرض کریں ، گائے کے گوبر کو آکسیجن کی غیر موجودگی میں رکھ دیا گیا ہے ، آہستہ آہستہ وہ گوبر توڑ پھوڑ کا شکار ہوتا رہے گا۔ توڑ پھوڑ کے دوراں میتھین (قدرتی گیس) او

|Epigenetics and Failure of Neo Darwinism|

اس پوسٹ میں ایپی جینٹک کے پہلو سے ہونے والے نئے تجرباتی اور مشاہداتی شواہد سے نیو ڈارونزم کی ناکامی اور اس کے متبادل وضاحتی فریم ورک کے امکان کو دو سائنس پبلیکیشنز سے واضح کیا گیا ہے۔ نیو ڈارونزم کے Central tenet کے مطابق کسی بھی جاندار کا جینوم ماحول سے مکمل طور پہ لا تعلق ہوتا ہے۔ ماحول میں کیا چل رہا ہے کیسے چل رہا ہے اس کا کسی جاندار کے جینوم پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہر جاندار کی phenotype کی تبدیلی random mutation سے آتی ہے۔ بغیر کسی مقصد، پلان اور ڈائریکشن کے ہونے والی جینیاتی میوٹیشن بعض اوقات مفید ثابت ہو جاتی ہیں اس کے بعد اگر وہ جاندار کے سروائیول میں مدد کرے تو یہ جینیاتی تبدیلی Mendelian transmission کے اصول پہ آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی ہے اسی اصول پہ نیو ڈارونزم میں ارتقاء ہوتا ہے۔ لیکن ایک ابھرتی فیلڈ ایپی جینیٹک سے انے والے سائنسی شواہد کے مطابق ماحول کا ڈائریکٹلی جاندار کے جینوم پہ اثر ہوتا ہے ماحول کے مطابق جینوم اپنی کارکردگی کو تبدیل کرتا ہے جس سے نئی phenotype وجود میں آتی ہے جیسے کہ ڈارون فنچز کی چونچ کی مختلف ساخت کسی میوٹیشن کا نہیں بلکہ ایپی جینٹک ریگولیشن

قرآن اور سائنس کی مطابقت کی منطقی دلیل کیا ہے؟ کوئی ایسی دلیل جو منطقی وزن رکھتی ہو؟ (پہلا حصہ )

اس دلیل کی شروعات کرتے ہیں۔ بحثیت ایک مسلمان ہم سب اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ تمام ستارے، زمین، مادہ، انرجی، کوانٹم فزکس کے قوانین، بائیولوجی کی قوانین، کیمسٹری کے قوانین، تمام جاندار اور ان کے رہن سہن کا نظام ایک خدا کی تخلیق کا نتیجہ ہے۔ ڈی این اے کی انفرمیشن، خلیہ کا نظام، ستاروں میں سے فوٹونز کا نکلنا، زمین کی میگنیٹک تہ یہ سب ایک خدا کی تخلیق اور ارادے کا نتیجہ ہے جو لامتناہی قدرت اور ذہانت کا حامل ہے۔ منطقی طور پہ یہ واضح ہے کہ اس کائناتی نظام کو بنانے والا خدا خود اس نظام کے ہر قانون اور حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور انسانوں سے بہتر جانتا ہے۔ اللہ پاک نے یہ تمام کائناتی نظام انسانی تخلیق سے پہلے ترتیب دیا۔ پھر اللہ پاک نے چاہا تو انسان کی تخلیق فرما دی وقت کے ساتھ ہمارے آخری نبی پاک کا ظہور ہوا اور قرآن پاک نازل کیا گیا۔ یہ قرآن پاک خدا کی طرف سے ہے۔ اسی ایک خدا کی طرف سے جس نے پوری کائنات کی تخلیق اور ترتیب ماضی میں کی۔ قرآن پاک میں کائنات، انسان، سمندر، آسمان، مشاہدات، سوچ و بچار، جاندار اور زمینی نظام بارے معلومات پہ مبنی سینکڑوں آیات ہیں۔ یہ معلومات دینے والا وہی ایک خدا

BIOINFORMATICS

چونکے ڈی این اے کو The book of Life بھی کہا جاتا ہے اور یہ چار حروف A T C G کی ترتیب مشتمل ہوتی ہے۔ اس لئے ہم کتاب کی مثال سے جنیاتی مماثلت کے طریقہ کار پہ روشنی ڈالیں گے۔ فرض کریں آپ کے پاس،  ایک کتاب ہے 500 صفحوں پہ مشتمل جس کے  50,000 الفاظ ہیں۔ دوسری کتاب ہے 600 صفحوں پہ جس کے 60,000 الفاظ ہیں۔ دونوں کتابوں کا موضوع سائنس ہے۔ اگر آپ ان دونوں کتابوں میں لکھے گئے الفاظ میں مماثلت نکالنا چاہیں تو دکھنے میں آسان لگنے والا یہ کام حقیقت میں کافی مشکل ہے اور اس کا دارومدار اس بات پہ ہے کہ مماثلٹ سے آپ کا مطلب کیا ہے اور آپ مماثلت کیسے نکالتے ہیں۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ اگر آپ ایک پوری کتاب کے الفاظ کو ترتیب اور الفاظ کی موجودگی کے لحاظ سے  دوسری پوری کتاب کے الفاظ کی ترتیب اور موجودگی کے لحاظ سے موازنہ کریں گے تو چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ان میں کوئی مماثلت ہوگی۔ مزید آسانی کے لیئے اس طرح وضاحت کرتا ہوں کہ دونوں کتابوں کے تمامی الفاظ کو صرف ایک لائن میں لکھیں۔ پہلے کتاب کے تمام الفاظ ایک لائن میں پھر دوسری کتاب کے تمام الفاظ ایک لائن میں۔ اس طرح ہمارے پاس دو لائنیں آئیں گیںج

|US Army and UFO's|

ناقابلِ شناخت اڑتی ہوئی چیزیں جنہیں  (Unidentified Flying Objects UFO's) بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا مظہر ہے جس میں کچھ عجیب ہیئت کی چیزیں اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کی شکل گول روشنی کے دائروں سے لے کر دھات کے بنے کیوب جیسی ہو سکتیں ہیں۔ ان سب میں ایک خاصیت ضرور موجود ہوتی ہے۔ ان کے اڑنے کا انداز، تیز رفتاری اور دائیں بائیں مڑنے کا طریقہ کسی بھی انسانی ٹیکنالوجی سے مماثلت نہیں رکھتا۔ لہذا ان کو ناقابلِ شناخت اڑتی چیزوں کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ufo موجود ہیں سوال یہ ہے کہ ufo کیا ہیں؟ ان کو دیکھنے کی شہادتیں اور ویڈیوز نہ صرف عام لوگوں سے موصول ہوتی ہیں بلکہ امریکی فوج کے ٹرینڈ پائلٹس تک ان کو دیکھنے اور ان سے آمنا سامنا ہونے کے متعدد واقعات کو رپورٹ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پہ 2014 سے 2015 کے دوران امریکی بحری بیڑے Theodore Roosevelt کو ان ufo  سے سامنا کرنا پڑا۔ اس بحری بیڑے سے جب امریکی پائلٹس پرواز کے لئے نکلتے تو ان کے ریڈار، انفراریڈ کیمرہ اور دیگر آلات ان عجیب غریب اڑتی ہوئی چیزوں کی موجودگی کو کنفرم کرتے۔ ایسے واقعات کئ مہینے تک چلتے رہے۔ 6 امریکی پائلٹس ان ک