ڈپریشن کیا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر نثار احمد
ڈپریشن دراصل مسلسل بے چینی اور اداسی کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار افراد کا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ ان پر ہر وقت مایوسی چھائی رہتی ہے۔ ویسے تو یہ تمام کیفیات ڈپریشن کے بغیر بھی ہو سکتی ہیں لیکن اگر یہ کیفیات تسلسل کے ساتھ برقرار رہیں تو انہیں ڈپریشن کہا جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 12 سال سے زائد عمر کے 8 فیصد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں ڈپریشن کا شکار لوگوں کی تعداد 35 کروڑ سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے شکار کچھ لوگوں میں کسی بھی قسم کی معذوری بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
ڈپریشن مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت حالات سے جلدی گھبرا جاتی ہیں۔ ڈپریشن کی وجوہات کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن مختلف وجوہات سے ہو سکتا ہے جن میں مالی اور جسمانی نقصان، پیاروں کی جدائی اور مشکلات سے گھبرا جانا سر فہرست ہیں۔
اگر کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو اس چاہیے کہ پنجگانہ نماز پڑے اور ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کرے جن میں وہ کبھی خوشی محسوس کرتا تھا۔ اپنے آپ کو مصروف رکھے اور اداسی کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے۔ اس کے علاوہ کسی اچھے ماہر نفسیات کو بھی دکھا دے۔
تحریر: ڈاکٹر نثار احمد
ڈپریشن دراصل مسلسل بے چینی اور اداسی کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار افراد کا کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ ان پر ہر وقت مایوسی چھائی رہتی ہے۔ ویسے تو یہ تمام کیفیات ڈپریشن کے بغیر بھی ہو سکتی ہیں لیکن اگر یہ کیفیات تسلسل کے ساتھ برقرار رہیں تو انہیں ڈپریشن کہا جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 12 سال سے زائد عمر کے 8 فیصد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں ڈپریشن کا شکار لوگوں کی تعداد 35 کروڑ سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے شکار کچھ لوگوں میں کسی بھی قسم کی معذوری بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
ڈپریشن مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت حالات سے جلدی گھبرا جاتی ہیں۔ ڈپریشن کی وجوہات کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن مختلف وجوہات سے ہو سکتا ہے جن میں مالی اور جسمانی نقصان، پیاروں کی جدائی اور مشکلات سے گھبرا جانا سر فہرست ہیں۔
اگر کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو اس چاہیے کہ پنجگانہ نماز پڑے اور ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کرے جن میں وہ کبھی خوشی محسوس کرتا تھا۔ اپنے آپ کو مصروف رکھے اور اداسی کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دے۔ اس کے علاوہ کسی اچھے ماہر نفسیات کو بھی دکھا دے۔
Comments
Post a Comment