Skip to main content

قرآن اور سرن لیبارٹری

سورة انبیاء کی آیت نمبر 30 اور سرن لیبارٹری ۔۔۔!!!
____________________

سورۃ الانبیاء آیت نمبر 30 میں ربِ کائنات فرماتا ہے کہ

اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا‌ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ‌ؕ اَفَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿۳۰﴾
کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔ اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟  ﴿۳۰﴾
معزز قارئین علماء کے نزدیک یہ آیت بگ بینگ سے متعلق ہے کہ ایک عظیم الشان دھماکہ ہوا جس سے اربوں میل دور تک دھواں پھیل گیا پھر اس دھوئیں میں سے  ٹھوس اجسام ستارے ،سیارے اور کومینٹس وغیرہ بننے کا عمل شروع ہوا

ایک اور جگہ  ارشاد ہے کہ
ثُمَّ اسۡتَوٰىۤ اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًاؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏ ﴿۱۱﴾
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں  ﴿۱۱﴾سورة فصلت

سوال یہ ہے کہ جب پوری کائنات بن رہی تھی زمین و آسمان ایک دھویں کی شکل میں تھے تب کافر تو کیا وہاں کوئی مسلمان بھی نہ تھا کوئی ایسی انسانی آنکھ بھی نہ تھی جس نے بگ بینگ رونما ہوتے ہوئے دیکھا ہو جب کہ قرآن کہتا ہے کہ
"کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا اور تمام چیزیں پانی سے پیدا کیں ۔پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ "
اگر ہم غور کریں تو آیت مبارکہ میں تین چیزیں ۔پہلا جو آیت میں حالات بیان کیے جارہے ہیں روحانی نہیں ہے جو باقائدہ ایک فزیکلی وجود رکھتے ہیں ۔ان کا ایک فزیکلی ارتقاء ہوا تھا ۔لہذا یہ سوچنا بیکار ہے کہ یہاں رببِ کائنات روخوں سے مخاطب  ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ یہ سوال عالمگیری مزاج نہیں رکھتا یعنی پوری دنیا کے لوگوں کو محاطب  نہیں کیا گیا بلکہ ایک مخصوص طبقے کو مخاطب کیا گیا ہے اور وہ طبقہ کفار کا ہے یعنی کفار کے پاس کچھ ایسا ڈیٹا ضرور ہے جس سے کائنات کے پہلے لمحے کو دیکھا جا سکتا ہے یعنی کچھ ایسا ہے جس کا تعلق قران کی اس آیت سے گہرہ تعلق ہے ۔
تیسری بات ذہن میں رکھیے گا کہ دیکھنا ہمیشہ وہی نہیں ہوتا جو ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کا ایک پہلو مشاہدہ بھی ہے یعنی چیزوں کی باقیات کو درست ترتیب دے کر ماضی تک پہنچنا یا مستقبل میں جھنکنا ۔یہ سب کچھ دیکھنے کے زمرے میں آتا ہے
آپ آتے ہیں گزشتہ پچاس سال سے شروع ہوئی اس  رومانوی  داستان کی طرف   جس کی تکمیل ہمارے بعد آنے والی نسلیں کریں گی ۔اور اسی کے اندر آج کے سوال کا جواب چھپا ہے ۔
ہماری کائنات تقریباً13 بلین سال پرانی ہو چکی ہے یعنی  13.8 ارب سال پرانی ۔تو 13 ارب سال پہلے ایسا کیا ہوا ہوگا جب زماں و مکاں کا آغاز ہوا ہوگا اور جب ستارے آسمان پر چمکتے ہوں گے وہ سب کیسے ہوا ہو گا ؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر ترقی یافتہ تہذیب نے کھوجنے کی کوشش کی ۔ہزار طرح کے خیالات اور نظریات کے بعد آخرکار بگ بینگ تھیوری کو حقیقت کے قریب ترین مان لیا گیا کہ ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور اس کے بعد ہماری اس عظیم الشان کائنات نے جنم لیا لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ  اتنی بڑی کائنات ایک چھوٹے سے نکلتے میں بند رہی ہو ؟ اور وہ دھماکہ کیسے ہوا ہوگا ؟ دھماکے کے بعد ایک سیکنڈ کا کروڑواں حصہ کیسا رہا ہوگا ؟ وہ کیا چیز تھی جو پھٹی تو کائنات بنی کی ؟ تقریبا تیرہ ارب سال پہلے ایسا کیا ، کیوں اور کیسے ہوا تھا ؟ یہ سوال انیسویں صدی کا سب سے بڑا اور اہم سائنسی سوال بن گیا
اس سوال کا جواب پانے کے ہمارے پاس دو راستے تھے پہلا ہم ٹائم ٹریول کر کے ماضی میں جائیں جو کہ ایک ناممکن بات ہے دوسرا ہم فزکس کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک لمبی سی چیلہ کشی کریں۔ایک ایسا چیلہ جس میں دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے مذہب آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے لیکن اس چیلے میں بیٹھے سائنسدان مذہب ،رنگ اور نسل سے آزاد ہو کر کائنات کے اس سب سے بڑے سوال کو تلاش کرنے میں  ہمیشہ سر گرم  رہیں گے ۔انہیں کسی بھی طرح زیر زمین اسی لیبارٹری میں بیگ بینگ رہنما کرنا پڑے یا پھر اربوں نوری سال دور خلاء میں اس عمر جی کی پہلی رات تک پہنچنا پڑے جو بگ بینگ سے پیدا ہوئی تھی ۔
یہ ایک یا دو ملکوں اور چند سو سائنسدانوں  کے بس کی بات نہ تھی ۔اس کے لیے اربوں کھربوں ڈالرز اور دنیا کے بہترین دماغ چاہیے تھے تاکہ آنے والے وقت میں انسانی آنکھ تیرا ارب سال قبل رونما ہوئے اس حادثے کو اپنی جاگتی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکے۔ وہ حادثہ جس کے اندر انسانی تجسس کے کروڑوں سوالوں کا جواب چھپا ہے وہ بذات خود کون ہے اس کو کس طاقت نے بنایا اس سارے نظام کے پیچھے کونسی سوپر انرجی ہے جو پورے نظام کو بقاعدگی سے چلا رہی ہے ؟
یوں تحقیق کا ایک انوکھا سفر شروع ہوا اور ہر گزرتا لمحہ عجیب سے عجیب تر ہوتا گیا اور آج ہم 2019 میں داخل ہوئے اور ابھی انسان کی کئی نسلوں کو اس سفر میں محوِ سفر  رہنا ہے ۔
1952 میں سوئزرلینڈ اور فرانس کے بارڈر جنیوا کے مقام پر سو میٹر گہرائی میں دنیا کی سب سے بڑی اور مہنگی ترین لیبارٹری "سرن" کا آغاز ہوا ۔ سرن (CERN) یعنی     
 Center of European nuclear research laboratory
جو زیر زمین ستائیس کلومیٹر طویل ہے ۔آپ اس لیبارٹری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے 38 امیر ممالک ،177 یونیورسٹیاں اور لگ بھگ تین ہزار سائنسدان جنہوں نے کائنات کی ابتدا سے متعلق یہاں اپنی خدمات سر انجام دیں سرن کا سٹاف تقریباً دس ہزار افراد پر مشتمل تھا دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہ غیر مسلم تھے ۔
سرل کی گہرائی میں ہماری گریوئٹی فورس سے لاکھوں گنا زیادہ طاقتور میگنٹ ٹیوب بچھائی گی ۔جس میں ایٹم اور اس کے پارٹیکلز کو روشنی کی رفتار سے آپس میں ٹکرایا جاتا ہے یوں پل بھر کے لئے وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو تقریبا 13 ارب سال پہلے دن ہوتے ہوئے پیدا ہوئی تھی ۔اس طرح سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ بگ بینگ کے وقت آخر مادہ کیسے پیدا ہوا ہوگا ۔میٹر اوپری تہہ یعنی ہمارا آسمان اور درمیانی تہہ یعنی ستارے ،سیارے اور کومینٹس وغیرہ آخر کیسے پیدا ہوئے ہوں گے ۔
سرن کی 50 سالہ تاریخ ایک انتہائی خیرت انگیز داستان ہے ۔ہماری دنیا میں میڈیکل اور کمیونیکیشن سے متعلقہ 17فیصد ایجادات اور دریافتیں سرن لیبارٹری میں ہوئی مثلا انٹرنیٹ ،ایم آر آئی ،الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی سکین وغیرہ ۔
لیکن کائنات سے متعلق اصل سوال یعنی کہ یہ کیسے ہوا کیوں ہوا اور کس نے کیا ؟ اس سوال کا جواب ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا ۔اگرچہ سرن لیبارٹری میں سائنسدان بیگ بینک کو 80 فیصد تک سمجھ چکے ہیں اور وہ ایٹم ،پارٹیکل ،ملیکیولز  ،نیوٹرل پروٹان اور  مئٹر سب کچھ سے متعلق جان چکے لیکن سوال پھر بھی باقی ہے کہ انہیں کس نے بنایا ؟اتنا منظم دھماکہ اور پھر سب کچھ خود بخود کیسے بن سکتا ہے ؟اور جب یہاں کچھ بھی نہیں تھا تو کیا تھا ؟
سن کی گہرائی میں 50 سالوں کی ریاضت بعد غیر مسلم سائنسدانوں کو چیز ملی اسے آپ مسنگ میٹر ڈارک میٹر اور گارڈ پارٹیکل کہتے ہو ۔یعنی عام لفظوں میں سمجھاوں تو کوئی ایسا مادہ ،کوئی ایسا وجود ضرور ہے جو دکھائی تو نہیں دیتا لیکن وہ کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔وہاں بھی ہے جہاں کچھ بھی نہیں ۔اور وہ جو کوئی بھی ہے کائنات میں ہر چیز کی پیداوار کا ذمہ دار ہے اب کچھ لوگ سمجھے کہ کہ یہ ربِ کائنات کی طرف اشارہ کر رہا ہے ! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
سرن کی فائنل ریسرچ کے مطابق  جب تک وہ مسنگ میٹر کی حقیقت تک نہیں پہنچ جاتے تب تک وہ بگ بینگ کی حقیقت کو نہیں جانا جا سکتا ۔یہاں پہنچنے کے بعد سرن کی ریسرچ مکمل روک جاتی ۔بیشک سرن لیبارٹری کی ریسرچ کی مدد سے انسان تیرہ ارب سال پیچھے جانے میں کامیاب ہوا ہے لیکن کائنات کا پہلا لمحہ کیسا تھا ؟ وہ دھماکہ آخر ہوا کیسے؟
ہم انسانوں کے پاس قوانین موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹھیک بگ بینگ تک پہنچنے کے لیے  فزکس کے قوانین ناکافی ہیں ۔کیونکہ جب کچھ تھا ہی نہیں تو آپ قانونین کو کس پر لاگو کریں گے
دوسری بات جب تک ہم اس گارڈ پارٹیکل اور ڈارک میٹر کو دیکھ لیا محسوس نہیں کر لیتے تب تک ہم بھی دن تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ مادہ ایسا مادہ جس کا کائنات کے ذرے ذرے میں دخل ہے لیکن خود نامعلوم ہے وہ بوجھ اور آپ نے موجود ہے وہ کائنات کے پورے نظام کے اندر موجود ہے جسے سازمان تو ہے لیکن ثابت نہیں کر سکتی اور ثابت کئے بنا بگ بینگ کی مکمل حقیقت کو نہیں جان سکتی ۔یعنی فرضی قوانین اپنی حدود پہنچ کر بے بس ہو چکے ہیں جبکہ بہت ساری کائنات کھوجنا ابھی باقی ہے ۔
تحقیق کے اس سفر میں 50 سال پورے ہو چکے ہیں اس دوران ملکوں میں جنگیں بھی ہوئی بھوک اور قحط بھی آئے آپسی آداوت بھی عروج کو پہنچی ۔لیکن کسی ملک نے بھی کائنات کی کھوج سے متعلق اس عظیم پروجیکٹ پر کام سے انکار نہیں کیا اور اربوں ڈالرز کی فنڈنگ  50سال سے مسلسل جاری ہے ۔
ایک نقطے  میں بند وہ دنیا کیسی تھی اور پھر کیسے دھماکے سے وہ ایک بڑی کائنات بن گئی ؟ جب سرن لیبارٹری نے ہاتھ کھڑے کئے تو اس مشن کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ۔
پہلا حصہ ہے سوپر کمپیوٹر
 اور دوسرا حصہ ہے نیو جنریشن ٹیلی سکوپس ۔
کیلیفورنیا کی سلیک نشنل ایکسلیٹر لیبارٹری میں سپر کمپیوٹر کی مدد سے پوری کائنات کا ماڈل تیار کیا جا رہا ہے اور یاد رکھیے گا کہ یہ کام سرن لیبارٹری سے بھی سو گنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ سرن لیبارٹری میں ہمارے پاس فزکس کے قوانین موجود تھے  اور ایک بہت بڑا ڈیٹا بھی موجود تھا جبکہ سپر کمپیوٹر میں سائنسدان فزکس کے قوانین سے بہت پرے نئے اصولوں پر کام کر رہے ہیں اب وہ نے اصول انہیں کسی بھی سمت لے جاسکتے ہیں لہذا ریسرچ میں بھٹکنے کا خطرہ پوری طرح موجود ہے
دوسری چیز مسنگ میٹر یا ڈارک میٹر یعنی ہماری کائنات کا وہ مادہ جو نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن وہ کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے اسے جانے بغیر بھی بگ بینگ کی حقیقت تک پہنچنا ناممکن ہے تیسری چیز جس سب سے خطرناک ہے وہ یہ کہ ہم کائنات کو صرف 5 فیصد تک جانتے ہیں
اب اتنی محدود صورتحال میں بگ بینگ پہنچنا ایک بہت ہی بڑا چیلنج ہے
اگر بات کرئیں سپرکمپیوٹر کی تو اس میں تین بلین گلیکسیز اور کھربوں ستاروں کا ماڈل تیار کیا جا رہا ہے جس میں اس مسنگ یا ڈارک میٹر کو ٹریس کرنے کے لیے نئی معلومات حاصل کی جا رہی ہے تاریخ میں پہلی بار انسانی اور مشینی ذہانت مل کر ایسی کلکولیشن کو انجام دے رہی ہیں جس کے لیے کڑوڑوں صفحات  اور لاکھوں قلم  چاہیں۔ لیکن مشینیں دھڑا دھڑ اس مسنگ میٹر یا ڈارک میٹر اور گارڈ پارٹیکل کو ٹریس کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں کیوں ؟
کیونکہ "کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے ۔پھر ہم نے انہیں کھول کر جدا جدا کردیا "

سرن لیبارٹری کے پہلے دن سے سوپر کمپیوٹر تک قرآن کی یہ آیت مسلسل حقیقت کا روپ دھار  رہی ہے قرآن میں پوری دنیا کے کفار کو محاطب  کیا ہے اور یہاں بھی اس مشن میں دنیا کے سارے کافر آپس کے اختلافات بھلا کر اس مہنگے ترین مشن پر سالوں سے ایک ساتھ کھڑے ہیں جتنا فنڈ امریکہ دیتا ہے اتنا ہی فنڈ چین دیتا ہے  اور اتنا ہی فنڈز دیتا ہے یعنی صاحب ہیں اس مشن میں ایک ساتھ کھڑے ہیں
پوری کائنات ایک نقطے میں کیسے بند ہو سکتی ہے یہ جاننے کے لیے سپر کمپیوٹر کے بعد دوسرا مخاذ ہے  نیو جنریشن ٹیلی سکوپس ۔ 1990 میں ہبل نامی ایک ٹیلیسکوپ کو خلاء میں بھیجا گا جس میں پچھلے تیس سال سے ہمیں ستاروں کو کہہکشاوں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرکے ہماری فلکیاتی تحقیق میں انقلاب برپا کر دیا اسی طرح ہم نے والجر  مشین کے ذریعے کائنات کے دور دراز کے مقامات کی تصاویر لیں کل ملا کے ہم انسانوں کی وہ نسل بن گئے  جن کے پاس کائنات سے متعلق سب سے زیادہ معلومات ہے
فرض کریں کہ اگر سرن اور  سپر کمپیوٹر بھی کائنات کی تخلیق سے متعلق بنیادی نکتہ پر پہنچنے پر ناکام ہوگئے تو سائنسدانوں کے پاس دوسرا راستہ کیا ہو گا؟
تو اس کا جواب ٹیلی سکوپس ہی ہیں ۔جب ہم سپیس میں دیکھتے ہیں تو ہم وقت میں بہت پیچھے دیکھ رہے ہوتے ہیں مثلا سورج کی روشنی ہم تک آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے یعنی اگر ہم سورج کو دیکھنا چاہے تو وہ 8 منٹ پہلے والا سورج ہوگا اسی طرح اگر ہم اپنی پڑوسی گلیکسی اینڈرومیڈا کو دیکھیں تو اس کی جو شکل نظر آئے گی وہ دو لاکھ سال پرانی ہوگئی ۔اب پوائنٹ کو سمجھیئے گا اگر سائنسدان کسی بھی طرح کائنات میں کسی ایسی گلیکسی کو تلاش کر لیتے ہیں جو بگ بینگ سے پیدا ہونے والی گلیکسیز  کی پہلی جنریشن سے ہو یقینا ایسی کسی کی تصویر کائنات میں کہیں پر تو سفر کر رہی ہوگی اگر سائنسدان اس تصویر تک پہنچتے ہیں تو وہ بگ بینک کی منطقی حقیقت تک بھی پہنچ سکتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ سائنسدان ایک ایسی ٹیلی سکوپ ایجاد کریں جو ناممکن کی حدوں سے بھی پار دیکھے ۔ہبل کے بعد جیمز ویب ٹیلیسکوپ اس مشن کی تکمیل کے لئے تیار ہے ۔ہماری اب تک کی جو ٹیلی سکوپس تھیں وہ اوپٹئکل ٹائپ کی ٹیلی سکوپس تھیں۔ یعنی سیاروں کے پار اور دھوئیں کے اندر وہ نہیں دیکھ سکتی تھی صرف ٹھوس اجسام ہی نظر آتے تھے جبکہ جیمز ویب ایک جدید ترین ایکسرے ٹیلیسکوپ ہے یہ ہر چیز کا ایکسرے عکس لیتی ہوئی اس کے آرپار لاکھ نوری سال دور تک دیکھ سکتی ہے یہ روشنی کی ان باقیات کو بھی ڈیٹیکٹ کرنے کی کوشش کرے گی جو بینک کے وقت پیدا ہوئی تھی ۔اور یہ مسنگ میٹر یا ڈارک میٹر کو بھی ٹریس  کرنے کی کوشش کرے گی اس ٹیلی سکوپ کو 2021 نے لانچ کیا جائے گا۔ سر ن اور سپر کمپیوٹر کے بعد زمین و آسمان کی تخلیق کا راز جاننے کے لیے  سائنسدانوں کے پاس یہ واحد ہتھیار ہے
2021 میں جیمز ویب ٹیلیسکوپ خلاء میں بھیجی جائے گی اس کے بعد تحقیق کا یہ سفر کتنا لمبا ہوگا کوئی نہیں جانتا لیکن یہ تہہ ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جب سائنسدان بگ بینگ کروا کر چھوٹے چھوٹے سیارے اور زمین و آسمان پیدا کر رہے ہوں گے ۔وہ تخلیق ارض و سماں کے ہر اس راز سے واقف ہوگا جس سے آج ہم تو کیا ہمارے جدید سائنس دان بھی نہیں جانتے ۔یہ پورا نظام کس نے بنایا آج ہم مذہب سے ہٹ کر اس کی واضح تشریح نہیں کرسکتے لیکن مستقبل کا وہ شخص ہم سے زیادہ اور بہتر اس کی تشریح کر سکے گا وہ خدا کو ایسے جانتا ہوگا جیسے آپ کسی اپنے کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی وہ رب ذوالجلال کا انکار کرے گا ۔قرآن اس سے پوچھے گا

"کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے ۔پھر ہم نے انہیں کھول کر جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار پانی سے پیدا کیے ۔پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ؟"

"اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا ،پھر بھی وہ ہماری نشانیوں سے منہ یہ رہے ہیں " (سورة انبیاء آیت 2،3)

یہ ساری آیات مستقبل میں حقیقت میں ڈھلا بن کر کفار کے سامنے کھڑی ہونے والی ہے اور ان کے پاس انکار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا اور ربِ کائنات ان پر ہر چیز کو کھول دیں گے تاکہ کل قیامت کو وہ کوئی جواز پیش نہ کر سکیں۔


Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج