Skip to main content

Longest evolutionary staSis in Bacteria (prokaryotes never evolved )


ارتقاء کی تاریخ اور فاسل ریکارڈ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ہر جگہ ارتقائی ٹھہراؤ (Evolutionary Stasis) نظر آتا ہے۔ جاندار اپنی ارتقائی تاریخ میں کبھی بھی کسی دوسرے جاندار میں تبدیل نہیں ہوتا چاہے کئی سو ملین سال گزر جائیں یا کئی بلین سال گزر جائیں۔ درجنوں مختلف جانداروں کی مثالیں فاسل ریکارڈ میں محفوظ ہیں جو ظاہر کرتیں ہیں کہ جاندار اپنی بنیادی ساخت میں اچانک ظاہر ہوتے ہیں اور پھر اسی بنیادی ساخت میں موجود رہتے ہیں۔ ایک مچھلی کی سینکڑوں مختلف اقسام ہو سکتیں ہیں لیکن ایک مچھلی کبھی بھی ڈائنوسار نہیں بنتی۔
ایسا ہی ارتقائی ٹھہراؤ کا پیٹرن آپ کو یک خلوی جانداروں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان یک خلوی جانداروں یا پروکیریوٹس (Prokaryotes) کے بارے نیو ڈارونین تھیوری کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ لمبے عرصے میں ارتقاء کر کے مچھلیوں اور دیگر جانداروں میں تبدیل ہو گئے۔ جبکہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ یک خلوی جاندار اربوں سال گزر جانے کے بعد بھی اپنی خصوصیات اور ساخت میں یک خلوی جاندار ہی رہتے ہیں۔

اکثر ارتقائی حضرات کا معذرت خواہانہ اعتراض ہوتا ہے کہ جی میکرو ارتقاء (Macroevolution) ہونے پہ وقت لگتا ہے۔ یہ ہزاروں یا لاکھوں سالوں میں نہیں ہوتا بلکہ کئی سو ملین سال چاہیئے ہوتے ہیں۔
چلیں ٹھیک ہے! اگر پانچ سو ملین سال دے دیے جائیں تو میکرو ارتقاء کے لئے کافی ہیں؟؟ یعنی یک خلوی جاندار سے کسی مچھلی کا ارتقاء ہوجائے!
یا اگر ایک ہزار ملین سال دے دیے جائیں تو یک خلوی جاندار سے مچھلی کے ارتقاء کے لئے کافی ہیں؟؟
اگر اب بھی جواب نہیں ہے، تو کیا دو بلین سال دے دیے جائیں تو ایک یک خلوی جاندار مچھلی میں ارتقاء کر لے گا؟؟
ایسا کرتے ہیں زمین پہ زندگی کی شروعات سے لے کر اب تک کا سارا وقت دے دیا جائے تو کیا ایک یک خلوی جاندار ایک مچھلی میں ارتقاء کر لے گا؟؟
اب زندگی کے شروعاتی دور سے زیادہ کا وقت دینا نہ تو سائنسی طور پہ ممکن ہے اور نہ منطقی اعتبار سے ممکن ہے۔ لیکن نیو دارونین ارتقاء کی ناکامی اور بد نصیبی یہ ہے کہ حقائق کچھ ایسا ہی ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پہ زندگی کے شروعاتی دور کے یک خلوی جاندار بغیر کسی Macroevolution کے آج بھی یک خلوی ساخت میں موجود ہیں۔
ذندگی کی پوری تاریخ گزر گئی لیکن ارتقاء نہیں ہوا۔۔۔!!!

نیچر جریدے کی ایک سائنس پبلیکیشن میں 3.4 بلین سال پرانے فاسل سٹرومیٹولائٹس (Stromatolites) کو ریپورٹ کیا گیا جو آسٹریلیا کے Pilbra علاقے سے حاصل کیے گئے۔ ارتقائی سائنسدانوں کے مطابق زمین پہ زندگی کتنی پرانی ہے اس کا سب سے مستند فاسل ثبوت یہ سٹرومیٹولائٹس ہیں جو آسٹریلیا میں ملے۔ ارتقائی حلقے میں زمین پہ زندگی کی موجودگی کی تاریخ جاننے کے لئے ان فاسلز کو سب سے قابلِ قبول قرار دیا جاتا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پہ یک خلوی جاندار 3.4 بلین سال پہلے موجود تھے۔ ان سے پرانے کچھ فاسلز سٹرومیٹولائٹس بھی موجود ہیں لیکن ان پہ بہت سے اعتراضات ہیں اور ان کی شناخت غیر حتمی ہے۔
سٹرومیٹولائیٹس ہیں کیا؟
سٹرومیٹولائٹس خاص پتھریلی تعمیرات ہیں جو سیانوبیکٹیریا (Cyanobacteria) بناتے ہیں۔ سمندر کے کم گہرے پانیوں میں سیانو بیکٹیریا نسل در نسل اپنی افزائش کے دوران منرلز (Minerals) اور سیڈیمنٹس (Sediments) کو اپنے جسم سے خارج ہونے والے چپکو مادے (Extracellular Polymeric Substance) میں باندھتے جاتے ہیں۔ سیانو بیکٹیریا چونکہ فوٹو سنتھیٹک (Photosynthetic) یک خلوی جاندار ہیں لہذا یہ سٹرومیٹولائٹس کے اوپری سطح پر رینے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سورج کی روشنی پہنچتی اور نیچے پتھریلی تعمیرات سٹرومیٹولائٹس بناتے جاتے ہیں۔ مائیکروسکوپک سطح پہ سیانو بیکٹیریا کی اس ایکٹیویٹی سے تہ در تہ بننے والی تعمیرات وقت کے ساتھ پتھر میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اکثر اوقات ان میں سیانو بیکٹیریا مر کر فاسلز بن جاتے ہیں۔
http://www.dmp.wa.gov.au/Stromatolites-and-other-evidence-1666.aspx
اب صورتحال یہ ہے کہ آج سے 3.4 بلین سال پہلے بھی سیانو بیکٹیریا موجود تھے اور سٹرومیٹولاٹس بنا رہے تھے۔ آج کے دور میں بھی سیانو بیکٹیریا یک خلوی ساخت میں موجود ہیں اور سٹرومیٹولائٹس بنا رہے ہیں۔ یہ سٹرومیٹولائٹس چند ہزار سال پرانے ہیں اور آسٹریلیا میں موجود ہیں۔
سیانو بیکٹریا کا استعمال موجودہ دور کی بہت سی انڈسٹریز میں بھی کیا جا رہا ہے جہاں ان کا استعمال بائیوٹیکناجی، پیٹرولیم، کھاد بنانے میں، گندا پانی صاف کرنے، ادویات کی تیاری اور خوراک کی تیاری میں ہوتا ہے۔
https://onlinelibrary.wiley.com/doi/10.1111/j.1365-2672.2008.03918.x
 زندگی کی پوری تاریخ گزر گئی لیکن سیانو بیکٹیریا کثیر خلوی جانداروں میں ارتقاء نہ کر سکا۔ نیو ڈارونین ارتقاء کا آج بھی کوئی ثبوت نہیں! یک خلوی جاندار آج بھی اپنی ساخت، رویہ اور خصوصیات میں ویسے کا ویسا ہے! مذید حیرانی کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں سیانو بیکٹیریا کی 2700 رجسٹرڈ سپیشیز ہیں اور سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پہ سیانو بیکٹریا کی 8000 سپیشیز ہو سکتی ہیں۔ یعنی ایک ہی یک خلوی جاندار کی مختلف اقسام آج بھی موجود ہیں لیکن کوئی بھی سپیشیز مچھلی میں ارتقاء نہ کر سکی۔
https://link.springer.com/article/10.1007/s10531-013-0561-x
 اس کے علاؤہ سیانو بیکٹیریا (Cyanobacteria) کو ان یک خلوی جانداروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کی سپشیز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہی حقائق باقی تمام جانداروں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بلی ہمیشہ بلی رہتی ہے چاہے جتنی مرضی اقسام میں تبدیل ہو جائے۔ مینڈک ہمیشہ مینڈک رہتا ہے چاہے جتنی مرضی اقسام میں تبدیل ہو جائے۔ سانپ اور مکڑی ہمیشہ اپنی بنیادی ساخت میں ویسے کے ویسے رہتے ہیں چاہے ہزاروں مختلف اقسام میں تبدیل ہو جائیں۔
 اور یک خلوی جاندار 3.4 بلین سال بعد آج بھی یک خلوی جاندار ہی ہے۔۔۔!!!
"The 3,430-million-year-old Strelley Pool Chert (SPC) (Pilbara Craton, Australia) is a sedimentary rock formation containing laminated structures of probable biological origin (stromatolites)."
https://www.nature.com/articles/nature04764
"Here we present a multi-kilometre-scale palaeontological and palaeoenvironmental study of the SPC, in which we identify seven stromatolite morphotypes—many previously undiscovered—in different parts of a peritidal carbonate platform."
https://www.nature.com/articles/nature04764
"Finally, we argue that the diversity, complexity and environmental associations of the stromatolites describe patterns that—in similar settings throughout Earth's history—reflect the presence of organisms"
https://www.nature.com/articles/nature04764
---------------------------------------------
اب یک خلوی جاندار کی دوسری مثال کی طرف آتے ہیں۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات کہنا چاہوں گا۔ آپ نے اس حوالے میں سائنسی حقائق اور ارتقائی قیاس کا فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔

یہ سائنس پبلیکشن PNAS جریدے میں پبلش ہوئی اور اس میں سائنسدانوں نے رپورٹ کیا کہ انہیں سلفر سائکلنگ (Sulfur Cycling) بیکٹیریا کے فاسلز ملے ہیں۔ زمین پہ سلفر سائکلنگ کا عمل زندہ جانداروں کے لئے بہت ضروری ہے اس کے بغیر زندگی کا وجود تقریباً ناممکن ہے۔ سلفر بیکٹریاز سلفر کو ری سائیکل کر کے قابل استعمال شکل میں ماحول میں خارج کرتے ہیں۔ اس پہ معلومات کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://www.britannica.com/science/sulfur-cycle
 یہ بیکٹریا 1.8 بلین سال پرانے ہیں ان فاسل یک خلوی بیکٹیریا کی ساخت موجودہ دور میں پائے جانے والے سفلر بیکٹریا سے مکمل طور پہ مشابہت رکھتی ہے۔ یہاں "Identical" کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی 1.8 بلین سال پرانے سلفر بیکٹیریا اور موجود دور میں پائے جانے والے سلفر بیکٹیریا کے ساخت مکمل طور پہ ایک جیسی ہے۔ یہ نیو ڈارنین تھیوری کی ایک اور زلت آمیز ناکامی ہے۔ ایک ہزار اٹھ سو ملین سال گزر جانے کے بعد بھی یک خلوی بیکٹریا میں وہ ارتقاء نظر نہیں آیا جس کا دعویٰ نیو ڈارونین تھیوری کرتی ہے۔
حقائق یہ ہیں کہ یک خلوی بیکٹیریا آج بھی یک خلوی بیکٹیریا ہی ہے۔۔۔!!!
"An ancient deep-sea mud-inhabiting 1,800-million-year-old sulfur-cycling microbial community from Western Australia is essentially identical both to a fossil community 500 million years older and to modern microbial biotas discovered off the coast of South America in 2007"
https://www.pnas.org/content/112/7/2087

سائنس پبلشن میں ایک جگہ مزید یہ کہا گیا ہے کہ ہماری دریافت سے پہلے بھی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آسٹریلیا میں سلفر بیکٹریاز کے فاسلز دریافت کیے تھے جو کہ 2.3 بلین سال پرانے ہیں۔
جبکہ ان کے دریافت کردہ سلفر بیکٹیریا کے فاسلز 1.8 بلین سال پرانے ہیں۔
ان دونوں فاسلز میں 500 ملین سال کا فرق ہے۔ یاد رہے ارتقائی تھیوری کا دعویٰ یہ ہے کہ زمینی تاریخ کے تمام کثیر خلوی جانداروں کو ارتقاء کرنے میں 540 ملین سال لگے۔ چاہے ڈائنوسار ہوں، مچھلیاں، سانپ، پرندے، کیڑے، ہاتھی، زرافہ، بلی، مینڈک، گائے، مگر مچھ یا مچھر تمام کثیر خلوی جاندار ارتقائی قیاس کے مطابق تقریباً 540 ملین سال میں ارتقاء کر گئے۔
لیکن!!! حقائق یہ کہتے ہیں کہ 2.3 بلین سال گزر جانے کے بعد بھی یک خلوی سلفر بیکٹریا اپنی ساخت اور خصوصیات میں ویسے کے ویسے ہیں اور آج بھی یک خلوی ساخت میں موجود ہیں۔
"The recent discovery of a deep-water sulfur-cycling microbial biota in the ∼2.3-Ga Western Australian Turee Creek Group opened a new window to life's early history. We now report a second such subseafloor-inhabiting community from the Western Australian ∼1.8-Ga Duck Creek Formation."
https://www.pnas.org/content/112/7/2087

اوپر بیان کردہ چیزوں کا تعلق حقائق سے ہے اب آپ کو ارتقائی قیاس کا تعارف کراتے ہیں۔
ان کا زکر بہت ضروری ہے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ تنگ زہن ارتقائی طبقہ کس طرح حقائق کو قیاس آرائیوں میں دبا کر مسخ کرتا ہے۔
ارتقائی سائنسدان ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں کہ 2.3 بلین سال گزر جانے کے بعد بھی سلفر بیکٹیریا میں ارتقاء نام کی کوئی چیز نہیں۔
اب ان حقائق کی ارتقائی وضاحت کرنے کے لئے دو قیاس آرائیاں کی جاتیں ہیں ایک یہ کہ 2.3 بلین سال سے ان بیکٹریا کا ماحول نہیں بدلہ ہوگا اس لئے ارتقاء نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت کدھر ہے؟ یہ قیاس ارائی کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق اس کا کوئی ثبوت میسر نہیں اس کے لئے اضافی ثبوت چاہئے۔
دوسری طرف ارتقائی سائنسدانوں کا ایک اور گروپ ہے جو پہلی ارتقائی وضاحت سے متفق نہیں۔ یہ گروپ ایک دوسری قیاس ارائی کرتا ہے۔ ان کے مطابق سلفر بیکٹریا میں ارتقائی ٹھہراؤ کی وجہ ماحول کا تبدیل نہ ہونا نہیں بلکہ ان بیکٹیریا کا convergent ارتقاء کرنا ہے۔
اس کا ثبوت کدھر ہے؟؟ اس کا بھی کوئی ثبوت ہے۔
یہ سب وہی قیاس آرائیاں ہیں جن پہ ارتقاء کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
یہاں ایک اور نکتہ قابل غور ہے اوپر دی گئی سیانوبیکٹیریا کی مثال میں ماحول بدل رہا ہے اور اس کی مختلف اقسام موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی سیانو بیکٹریا اپنی بنیادی ساخت میں ویسے کا ویسا ہی ہے۔  اگر سلفر بیکٹیریا کے لئے ماحول نہ بدلنے کی قیاس ارائی کی جائے تو سیانو بیکٹیریا کے صورت میں یہ ارتقائی قیاس ناکام ہوجاتی ہے اور ماحول نہ بدلنے کی قیاس ارائی سے ارتقائیوں کا ایک گروپ ویسے بھی اتفاق نہیں کرتا۔
ان قیاس آرائیوں کے گھن چکر میں نیو ڈارونین ارتقاء کے لئے ہر طرف سے زلت آمیز ناکامی اور رسوائی ہی بچی ہے۔

ایک جگہ اور سائنس پبلیکیشن میں واضح الفاظ میں یہ کہا گیا کہ جب 2.3 بلین سال پرانے سلفر بیکٹیریا کے فاسلز کا موازنہ موجودہ دور کے زندہ سلفر بیکٹیریا سے کیا گیا تو ان کی خلوی ساخت، انرجی پیدا کرنے کے طریقہ، نائٹریٹ سلفیٹ اور سلفر کو استمعال کرنے کا طریقہ ہوبہو ایک جیسا تھا اور کوئی بھی تبدیلی نظر نہیں آئی۔
"we compare sulfur-cycling ∼1.8- and ∼2.3-Ga fossil communities with their modern counterparts and report that the community fabric of the fossil and modern microbes, as well as their organismal and cellular morphology, their interlinked energy-production via anaerobic sulfate-reduction and sulfur species oxidation, and their use of sulfate and nitrate to fuel this sulfur cycle appear to have remained unchanged over a segment of geological time equivalent to half the age of the Earth."
https://www.pnas.org/content/112/20/E2560

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یک خلوی جاندار سے کثیر خلوی جانداروں کے ارتقاء کا کوئی ایک بھی ثبوت میسر نہیں۔ جو سائنسی شواہد موجود ہیں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 1.8 بلین سال گزر جانے کے بعد۔ 2.3 بلین سال گزر جانے کے بعد۔ زندگی کی شروعات سے لے کر اب تک کا تمام وقت یعنی 3.4 بلین سال گزر جانے کے بعد بھی یک خلوی بیکٹیریا/جاندار/پروکیریوٹس آج بھی اپنی ساخت اور خصوصیات میں یک خلوی جاندار ہی ہیں۔

---------------------------------------------
Written and Researched by
Sohaib Zobair

Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج