Skip to main content

The Tree of Lies (Dying Central Tenet of Neo Darwinism) Part-1


ارتقائی تاریخ کا درخت جسے tree of life بھی کہتے ہیں ارتقائی تھیوری کا پیش کردہ بنیادی نظریاتی ڈھانچے ہے۔ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ڈارون نے پہلی بار 1837 میں اپنی زاتی ڈائری جسے transmutation notebook بھی کہا جاتا ہے میں "I think" لکھ کر ارتقاء کے تناظر میں ارتقائی تاریخ کے درخت کا تصور پیش کیا۔  تب سے لے کر اج تک تقریباً 170 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور زندگی کے درخت/ارتقائی تاریخ کے درخت پہ ارتقائی سائنسدانوں نے بہت سی تحقیقات اور پبلیکیشنز کے ذریعے اس کو سائنسی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ارتقائی نظریے کے اس بنیادی ڈھانچے پہ پوری سائنسی فیلڈ موجود ہے جسے Phylogenetics کہتے ہیں۔ جس کا کام صرف جینیاتی مواد سے ارتقائی تاریخ کا درخت تیار کرنا جس کی شاخیں تمام جاندار موجود یا ناپید کو represent کرتی ہیں جو مشترکہ اجداد کے کنسیپٹ پہ ایک دوسرے سے ارتقاء یافتہ ظاہر کیے جاتے ہیں۔ ارتقاء کے مطابق زندگی کے درخت میں یک خلوی جاندار سے کثیر خلوی جانداروں کے ارتقاء اور پھر آبی جاندار اور آخر میں زمینی جانداروں کے ارتقاء کا مکمل اور تفصیلی نقشہ(visual representation) موجود ہے۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ زندگی کا درخت واقعی مستند سائنس پہ مبنی ہے یا نہیں!!!
ماڈرن سائنس میں نئی تحقیات اور ڈیٹا سے جو انفارمیشن سامنے ا رہی ہے اس سے ارتقائی تھیوری کے بنیادی دعویٰ جات یا تو غلط ثابت ہو رہے یا صرف مفروضوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ارتقائی تھیوری کے بنیادی ڈھانچے tree of life کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ماضی میں نیو ڈارونزم کے حق میں سائنسی ثبوت سمجھے جانے والے زندگی کے درخت کی ویلیو موجودہ دور میں کم ہو کر ایک ناکام Hypothesis جتنی رہ گئی ہے۔
عام طور پہ عوام کو پروپیگنڈا سائنس آرٹیکلز میں اور ارتقائی سائنسدانوں سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ زندگی کا درخت مستند سائنس ہے ہر چیز ثابت شدہ ہے. فیس بک پہ ہونے والے مباحثوں میں بھی کامن اینسیسٹر اور درخت کی شاخوں کا حوالہ دے کر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن میں آج آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دیکھاوں گا جو کہ مکمل طور پہ مختلف ہے۔
اس پہ مزید تفصیل کے لئے New Scientist میں پلبش ہونے والے دو اہم آرٹیکلز ضرور پڑھیں،
(1) Uprooting Darwin's Tree https://www.newscientist.com/article/mg20126923-000-editorial-uprooting-darwins-tree/
(2) Why Darwin Was Wrong About The Tree of Life https://www.newscientist.com/article/mg20126921-600-why-darwin-was-wrong-about-the-tree-of-life/

زندگی کے درخت کا تصور ماضی کے بہت سے مذاہب اور تہذیبوں میں موجود تھا۔ ڈارون نے کس زندگی کے درخت کا تصور عیسائی، یہودی اور دیگر تہذیبوں سے متاثر ہوکر اٹھایا اور اسے اپنی تھیوری میں شامل کر کے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی اس پہ Oxford University press کا یہ آرٹیکل ملاحظہ کریں۔
https://academic.oup.com/sysbio/article/64/3/546/1634524

سائنس جریدے PLOS one میں 2016 کو پلبش ہوئے پیپر سے شروعات کرتے ہیں۔ اس میں تفصیل کے ساتھ اس کا اعتراف کیا گیا ہے کہ 170 سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے اور تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی tree of life کی حثیت ایک مفروضے جتنی ہے۔ صرف مالیکیولر بائیولوجی کی فیلڈ سے آنے والی معلومات اور ڈیٹا ہی نیو ڈارونزم کے ارتقائی تاریخ کے درخت کی ناکامی کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کر کے زمین بوس کر رہا ہے۔
زندگی کے درخت کا مفروضہ اس ارتقائی سوچ سے اخذ کیا جاتا ہے کہ تمام جانداروں میں ایک جیسی جسمانی ساخت یا جنیاتی ساخت مشترکہ اجداد  کی وجہ سے ہے اور زندگی کے درخت کی جڑ پہ ایک بلکل سادہ یک خلوی جاندار ہے. تمام زندگی اس سادہ یک خلوی جاندار سے ارتقاء پذیر ہوئی ہے۔ یہ تقریباً چار بلین سال پہلے کسی طرح وجود میں آیا۔ پھر یک خلوی جاندار وقت کے ساتھ ساتھ رینڈم میوٹیشنز اور نیچرل سلیکشن سے غیر ارادی، بے مقصد اور غیر سمتی ارتقاء کرتا ہوا دو شاخہ(Bifurcation) طور پہ تقسیم ہوتا گیا اور ایک درخت نما topology بناتا ہے۔
شروعات میں comparative biology کی بنیاد پہ زندگی کے درخت کو بنانا شروع کیا گیا جس میں ایک جیسی phenotype کے جانداروں کے گروپس similarity کی بنیاد پہ بنائے گئے یعنی جو جاندار دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے معلوم ہوتے تو بغیر کسی ثبوت کے اخذ کر لیا جاتا کہ ان کا جد مشترک ہے اور یہ ایک دوسرے سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔
لیکن یہ طریقہ کار گول منطق پہ مبنی تھا: جانداروں میں ایک جیسی جسمانی ساخت کس چیز کا ثبوت ہے؟ یہ ارتقاء کا ثبوت ہے۔
ارتقاء کا ثبوت کیا ہے؟ ارتقاء کا ثبوت جانداروں میں پائی جانے والی ایک جیسی جسمانی ساخت ہے۔ یہ گول منطق غیر سائنسی طریقہ تھا اور زندگی کے درخت کا ایک independent ثبوت نہیں مانا جا سکتا تھا۔
پھر 1960 کے بعد مالیکولر سیکوئینس ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والے جین سیکوئنس، آر این اے سیکوئنس اور جینومک ڈیٹا سے زندگی کا درخت بنایا گیا اور یہ خیال کیا گیا کہ اب پہلی بار زندگی کے درخت کا مکمل اور نا قابل تردید ثبوت سامنے آئے گا جو ڈی این اے کی بنیاد پہ ہوگا اور ماضی میں استعمال کی گئی cricular reasoning سے چھٹکارا مل جائےگا۔ 
شروعات میں صرف ایک جین 16S RNA کا استعمال کیا گیا اور phylogenetic tree بنایا گیا جو بہت مشہور ہوا اور یہ کہا گیا کہ آخر کار ہمارے پاس زندگی کے درخت کا سائنسی ثبوت میسر ا گیا۔ پھر مزید مختلف جینز سیکوئینس سامنے آئے اور ان سے زندگی کا درخت بنایا گیا جس میں مختلف جاندار مختلف شاخوں پہ تھے۔ یہ ماضی کے phylogenetic trees سے تضاد میں تھا۔ اسی طرح مختلف conserved genes کا استعمال کیا گیا اور ہر دفعہ زندگی کا درخت باقی جینز کے حروف سے بنائے گئے درختوں سے مختلف تھا۔ اب حالات یہ ہیں کہ ایک جاندار ایک طرح کے فائلو جینیٹک درخت میں ایک شاخ پہ ہے دوسری درخت میں کسی اور شاخ پہ ارتقاء کر رہا ہے تیسرے درخت میں کسی اور شاخ پہ ارتقاء کر رہا ہے۔ یہاں تک تقریباً 7,000 مختلف phylogenetic trees آج موجود ہیں جن میں آپس میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی۔ ارتقائی سائنسدان ان میں زبردستی مطابقت نکالنے میں مصروف ہیں اور ارتقائی سائنسدانوں کے پاس کوئی جواب نہیں کہ کونسا ٹھیک ہے اور کونسا غلط ہے۔
https://jbiol.biomedcentral.com/articles/10.1186/jbiol159
یہ مسئلہ eukaryotes کے ساتھ بھی ہے اور prokaryotic کے ساتھ بھی ہے لیکن prokaryotes کی ارتقائی تاریخ کے لئے سنگین ترین ہے جس کی وجہ ان میں لیٹرل جین ٹرانسفر (Lateral Gene Transfer) ہے یہ ارتقائی تھیوری پہ ایک کاری ضرب ہے۔ نیو ڈارونزم اس چیز کو assume کرتا ہے کہ تمام جانداروں کی جسمانی اور جینیاتی مماثلت نسل در نسل ارتقاء کرتے ہوئے وجود میں ائی (Homology)۔ لہذا ماضی میں جاتے جائیں تو تمام جانداروں کے اجداد مشترک ہوتے جائیں گے (Common Descent). جو سادہ یک خلوی جاندار سے جا ملیں گے (LUCA)۔ اس ماڈل کو vertical gene transfer کہتے ہیں۔ لیکن اب نئی دریافتوں سے lateral gene transfer کا کانسیپٹ بہت اہم ہوگیا ہے۔ جس کا مطلب ہے پروکیریوٹس کے جینوم کا ایک بڑا حصہ ایک دوسرے کو ڈائریکٹلی جین ٹرانسفر کرنے سے آیا ہے۔ یعنی یک خلوی جاندارکی ایک سپیشیز کسی دوسری طرح کی بلکل مختلف سپیشیز کے یک خلوی جاندار کو ڈائیریکٹلی اپنا ڈی این اے ٹرانسفر کرسکتی ہے۔ مثال کے طور بکٹیریا اپنے ماحول سے کسی مردہ بیکٹریا یا آرکیا کا ڈی این اے جذب کر سکتے ہیں، یک خلوی جانداروں کی دو مختلف سپیشیز وقتی طور پہ آپس میں جڑ کر ڈی این اے کے حصے ٹرانسفر کر سکتی ہیں یا کوئی وائرس ایک بیکٹیریل یا آرکیا سپیشیز سے دوسری بیکٹیریل یا آرکیا سپیشیز میں ڈی این اے شامل کر سکتا ہے۔ ضروری نہیں جنیاتی مواد یک خلوی جانداروں میں نسل در نسل اگے چلے۔ جو ڈی این اے مماثلت دیکھا رہا ہے وہ کسی دوسری سپیشیز سے لیٹرل جین ٹرانسفر کے ذریعے بھی ا سکتا ہے۔ اس پہ مزید تفصیل میں یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
https://www.britannica.com/science/horizontal-gene-transfer
 پروکیریوٹس کی تقریباً 3.5 بلین سالہ تاریخ میں انگنت بار ہوئی اس جنیاتی shuffling نے نیو ڈارونزم کے ارتقائی درخت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ زمین پہ شروعاتی 3.5 بلین سال تک صرف یک خلوی جاندار ہی تھے اس کے بعد کم ازکم دو درجن دفعہ مختلف اوقات پہ prokaryotes کثیر خلوی جانداروں پہ ارتقاء کرتے ہیں۔ لہذا اس genetic shuffling کی وجہ سے تمام جانداروں میں بہت کم جینز ہیں جن کے بارے ارتقائی سائنسدان یقین سے کہ سکیں کہ نسل در نسل چلتا ہوا آیا ہے۔ اس لحاظ سے زندگی کے درخت کے مفروضے کا غیر جانبدار اور معروضی سائنسی ثبوت پیش کرنا مشکل سے نا ممکن بن چکا ہے۔ نیو ڈارونزم جس چیز کی پیش گوئی کرتا ہے اسے مستند سائنس سے verify کرنا ممکن ہی نہیں۔ بہت سے غیر جانبدار سائینسدانوں یہ کہنا شروع ہو چکے ہیں کہ زندگی کے درخت کا مفروضہ ناکام ہوچکا ہے لہذا اس کو ترک کر کے نئی راہیں تلاش کی جائیں۔
اس وقت فائلوجینیٹک کی فیلڈ highly subjective ہوچکی ہے جب ارتقائی سائنسدان selected جینز کا استعمال کر کہ خاص طریقہ کار سے جنیاتی مواد میں سے زبردستی زندگی کا درخت نکالنے کی کوشش نہ کریں تب تک کوئی رزلٹ نہیں آتا۔ اس طریقہ کار کو سائنس نہیں کہا جا سکتا۔
پہلا یک خلوی جاندار LUCA بھی اس تناظر میں دھندلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ مختلف جینز سے بننے والے مختلف درخت پہلے یک خلوی جاندار کا ہر بار ایک مختلف نقشہ پیش کرتے ہیں۔ فلحال یہ اپنی پسند کے "منتخب شدہ جینز" کی مماثلت سے ماضی کی طرف اخذ کردہ ایک concept ہے۔
اس کے علاؤہ Eukaryotes یعنی انسان، پرندے، مچھلی، ہاتھی، چوہا، سانپ اور باقی تمام جانداروں میں بھی بہت سا جنیاتی مواد نسل در نسل(ورٹیکل جین ٹرانسفر) کے بجائے لیٹرل جین ٹرانسفر سے آنے کے شواہد موجود ہیں۔
"One of the several ways in which microbiology puts the neo-Darwinian synthesis in jeopardy is by the threatening to “uproot the Tree of Life (TOL)”

"After Darwin, classifications were most often assumed without proof to be evolutionary"

"In the mid-1960s, molecular sequencing (first proteins, then ribosomal RNAs, then genes, and now genomes) appeared to offer a way out of such circularity, a possible independent proof of the TOL hypothesis"

"different genes give different trees, and there is no fair way to suppress this disagreement, then a species (or phylum) can ‘belong’ to many genera (or kingdoms) at the same time: There really can be no universal phylogenetic tree of organisms based on such a reduction to gene"

"But it is microbes, with their promiscuous willingness to exchange genes between widely separated branches of any “tree,” that have most seriously jeopardized the neo-Darwinian synthesis, in the oversimplified form that we have often presented it to the public"

Reference to above material:
https://journals.plos.org/plosgenetics/article?id=10.1371/journal.pgen.1005912#pgen.1005912.ref004

ایک اور سائنس پبلیکیشن کے نتیجے میں بہت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ زندگی کے درخت کا مفروضہ مکمل طور پہ ناکام ہوچکا ہے جس کی وجہ مختلف جینز سے بنائے گئے درختوں کا جانداروں کی مختلف ارتقائی تاریخ کو ظاہر کرنا ہے۔  اس کے علاوہ پبلیکیشن میں کہا گیا ہے کہ باوجود اس کے ارتقائی تاریخ کا درخت کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم اس کو سٹوڈنٹس کو سمجھانے کے لئے ایک خاکے اور تصور کے طور پہ استعمال کر سکتے ہیں۔
"The irrefutable demonstration by phylogenomics that different genes in general have distinct evolutionary histories made obsolete the belief that a phylogenetic tree of a single universal gene such as rRNA or of several universal genes could represent the "true" TOL."
https://biologydirect.biomedcentral.com/articles/10.1186/1745-6150-6-32

***بقیہ اگلے حصے میں***
--------------------------------------------
Written and Researched by
Sohaib Zobair

Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج