Skip to main content

ہم جنس پرستی کا جینر سے کوئی تعلق نہیں !

|There Is No "Gay Gene"|

حال ہی میں ایک ریسرچ پبلش ہوئی ہے جس کے مطابق ہم جنس پرستی کا جینز (Genes) سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی کوئی ایسا جین یا میوٹیشن موجود نہیں جو انسان کو ہم جنس پرست بننے پہ مجبور کر دے۔ لہذا سائنس پرست اور ملحد افراد کے دعوے ایک دفعہ پھر غلط ثابت ہوگئے اور سائنس نے ہی کیے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی پہلو ہیں جن کی وجہ سے انسان ہم جنس پرستی کا انتخاب کرتا ہے۔ انسان کس ماحول میں پلا بڑھا، کیسے نظریات اور کیا تعلیم بچپن میں سیکھائی گئی جیسے عوامل بہت اہم ہیں۔
چونکہ LGBT کے حقوق اور آزادی مغربی معاشرے کی ایجاد ہے لہذا اس ریسرچ سے مغربی معاشرے اور خاص طور پہ LGBT کمیونٹی میں غم و غصہ نظر ا رہا ہے۔ اس پریشر کی وجہ سے اس تحقیق کے سائنسدان ایک ویب سائٹ بنا چکے ہیں جہاں عوام کو تسلی دے جائے گی کہ ہم جنس پرست ہونا کوئی غلط بات نہیں لہذا اس فعل کو جاری رکھنے میں کوئی برائی نہیں۔ مغربی معاشرہ اس کی پوری کوشش کر رہا ہے کہ مغربی نظریات اور فلسفہ کو کسی طریقہ سے سائنسی بنیاد فراہم کی جائے تاکہ خود کو یہ اطمینان دلایا جا سکے کہ ہمارا فلسفہ اور نظریات سائنس سے اخذ شدہ ہے۔
لیکن یہ تو الٹ ہوگیا!
“There is no ‘gay gene’ that determines whether someone has same-sex partners,” says Andrea Ganna, a geneticist at the Broad Institute of MIT and Harvard and the University of Helsinki.
https://www.sciencenews.org/article/no-evidence-that-gay-gene-exists

ایک اور آرٹیکل کی ہیڈنگ ملاحظہ کریں،
"The 'Gay Gene' Is a Total Myth, Massive Study Concludes"
https://www.livescience.com/no-single-gene-makes-someone-gay.html

موجودہ تحقیق میں استعمال ہوئے ڈیٹا کے مقدار ماضی میں اس موضوع پہ ہوئی تحقیقات سے 100 گنا زیادہ تھی اور کسی ایسی میوٹیشن کا یا جین کا ثبوت نہیں مل پایا جو انسان کو ہم جنس پرست بننے پہ مجبور کر دے۔
' "To give you a sense of the scale of the data, this is approximately 100-times-fold bigger than previous studies on this topic," study lead author Andrea Ganna, a researcher at the Institute for Molecular Medicine in Finland'
https://www.livescience.com/no-single-gene-makes-someone-gay.html

میں اس پوسٹ میں ایک خاص پہلو پہ روشنی بھی ڈالنا چاہوں گا کیونکہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
ایک سال پہلے 2018 میں اسی جریدے میں ایک ریسرچ پبلش ہوئی جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہم جنس پرستی کا تعلق جنیاتی میوٹیشن سے ہے۔
ایک سال بعد 2019 میں اسی جریدے میں ایک دوسری ریسرچ پبلش ہوئی کہ ہم جنس پرستی کا تعلق کسی میو ٹیشن یا جین سے نہیں۔
ان میں سے کونسی ریسرچ ٹھیک ہے؟
اس سے پہلے بھی بہت سی تحقیقات اس موضوع کی حمایت اور مخالفت میں پبلش ہو چکی ہیں ان سب کو آپ کس کھاتے میں ڈالیں گے؟
ظاہری بات ہے دو متضاد باتیں ایک ہی وقت میں سچ نہیں ہوسکتیں۔ ہم جنس پرستی کی جنیاتی وجہ ہے اور ہم جنس پرستی کی جینیاتی وجہ نہیں۔ یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں درست ہونا ناممکن ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ جو سائنسدان ہم جنس پرستی کو سائنس سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اسی حساب سے ڈیٹا، تحقیقی طریقہ کار اور وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔
جو سائنسدان غیر جانبدار انداز میں حقائق جاننا چاہتے ہیں ان کو ہم جنس پرستی کا کوئی جینیاتی ثبوت نظر نہیں آتا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے ایسا ہی چل رہا ہے اور بہت سی تحقیقات اس موضوع پہ پبلش ہو چکی ہیں۔
اگر سائنس کو غیر جانبدار تحقیقی طریقہ کار سے اٹھا کر مغربی فلسفہ اور نظریات ثابت کرنے پہ لگا دیں تو ظاہری بات ہے ایسا ہی ہوگا۔
ایک اور مغربی نظریہ ہے جس کو سائنس سے ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے وہ  عورتوں اور مردوں کی ہر سطح پہ برابری ہے۔ اب چونکہ یہ مغربی فلسفہ ہے لہذا کوئی نہ کوئی سائنس تو ایسی لانی پڑی گی جس پہ اس فلسفہ کو استوار کیا جائے۔ لیکن یہاں بھی مسئلہ ہے ایک ریسرچ کہتی ہے عورتوں اور مردوں کے دماغ میں بہت فرق ہے جبکہ دوسری ریسرچ کہتی ہے عورتوں اور مردوں کے دماغ میں کوئی فرق نہیں۔
 بات وہی ہے اگر درجنوں پی ایچ ڈی سائنسدان کچھ ثابت کرنے پہ آئیں تو وہ کسی بھی طریقہ سے کچھ نہ کچھ ثابت کر ہی دیں گے۔
سائنسی طریقہ کار علم حاصل کرنے اور ایجادات کرنے کا بہت خوبصورت اور عمدہ راستہ ہے۔ لہذا میری خواہش یہی ہے کہ سائنس کو سائنس رہنے دیا جائے اس کو مغربی نظریات اور فلسفہ ثابت کرنے کا میڈیم نہ بنایا جائے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے سائنس غلط نہیں ہوتی، سائنس کا استعمال غلط ہوسکتا ہے!

------------------------------------------------
Sohaib Zobair

Comments

Popular posts from this blog

|Endocrine and Exocrine glands

|Endocrine and Exocrine glands|  وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ تحریر : حسن جیلانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اینڈوکراین گلینڈ endocrine glands کو ductless glands بھی کہا جاتا ہے ۔ اینڈو کا مطلب ہے اندر اور کراین کا مطلب ہے اخراج تو اس حساب سے یہ گلینڈز اندر یعنی خون کے اندر اپنے مواد کو خارج کر دیتی ہے ۔ یہ گلینڈز اپنے ٹارگٹ سے عام طور پر دور واقع ہوتے ہے مثال کے طور پر pineal gland , pituitary gland hypothalamus وغیرہ ۔  اینڈوکراین گلینڈ endocrine gland اپنے مواد کو یعنی پیدا ہونے والی ہارمونز کو ڈائریکٹلی خون یا lymph nodes میں خارج کر دیتی ہے مثال کے طور پہ ایڈرینل  adrenal gland جو ایک اینڈوکراین گلینڈ ہے جو ایڈرینل میڈولا adrenal medulla میں پیدا کردہ   adenaline ہارمون  کا اخرج کرتی ہے یہ گلینڈ اپنے ہارمون کو ڈایرکٹلی خون blood میں شامل کر دیتا ہے ۔ ایگزوکراین گلینڈز exocrine glands کو duct gland بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے گلینڈز کے ساتھ ڈکٹس ducts موجود ہوتی ہے اور خون کے بجایے اپنا مواد ڈکٹس کو مہیا کرتی ہے ۔ ایگزو کا

چمگادڑ کے 53 ملین سال پرانے فاسلز

|Sudden Appearance of Bat Fossils 53 Myr ago| چمگادڑ (Chiroptera) ایک اڑنے والا ممالیہ جاندار ہے۔ جو دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پائی جاتی ہے۔ ان کو عام طور پہ دو گروپس میں بانٹا جاتا ہے ایک Megabats اور دوسرا Microbats یعنی چھوٹی چمگادڑیں اور بڑی چمگادڑیں۔ بڑی چمگادڑوں کے پروں کا پھیلاؤ چھ فٹ تک ہو سکتا ہے اور یہ عام طور پہ درختوں کے پھل اور پتے وغیرہ کھاتی ہیں جبکہ چھوٹی چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانداروں کو خوراک بناتی ہیں۔ ان کے بارے بہت سی افسانوں داستانیں بھی موجود ہیں۔ ڈریکولا سے لے کر Batman تک انکو افسانوں کرداروں سے جوڑا گیا ہے ایک اور افسانوی کہانی نیو ڈارنین ارتقاء کی ہے جس کے مطابق چمگادڑوں کا چوہے جیسے جاندار سے ارتقاء ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس قیاس آرائی کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ چاہے جتنا مرضی پرانا فاسل دریافت ہو جائے وہ واضح طور پہ چمگادڑ ہی ہوتا ہے۔ چمگادڑ (Chiroptera) کی 1300 مختلف اقسام یا سپیشیز ہیں اور یہ تمام ممالیہ جانداروں کی سپیشیز کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یہ ممالیہ جانداروں کا دوسرا سب سے زیادہ species rich آرڈر (order) ہے۔ میں PLOS جریدے میں 2017 کے سائ

موبائل فون پروسیسرز

موبائل فون پروسیسرز ، ان کی اقسام اور کیوں ضروری ہے اچھی میموری اور ریم کی بجائے ایک اچھا پروسیسر  بہترین کارکردگی کے لئے آج کل جس طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح موبائل انڈیسٹری میں بھی جدت آتی جا رہی ہے۔ آئے دن محتلف موبائل کمپنیز نئے نئے موبائل فونز متعارف کروا رہی ہیں جو بہترین میموری ، ریم، کیمرہ اور پروسیسر کے حامل ہونے کی وجہ سے بہترین کارکردگی بھی دیکھاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ موبائل فون خریدتے وقت میموری اور ریم پر توجہ دیتے ہیں جبکہ کسی بھی موبائل فون کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں میموری اور ریم سے زیادہ موبائل فون کے پروسیسر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور کس بنیاد پر ؟ اور موجودہ دور میں موبائل فون کے اندر کون کون سے پروسیسر  استعمال کیا جا رہے ہیں ؟ چلے جاتے ہیں اپنی اس تحریر میں ۔۔۔۔۔۔!!! _______________________________________________ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پروسیسر کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے پھر وہ ہمارے موبائل فونز ہوں یا پھر کمپیوٹر سسٹم  ۔ تو بھائی اگر آپ کے فون کا  پروسیسر بیکار ہے تو مطلب آپ کا فون بھی بیکار ہے ۔ اب ج